بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالبیع کا کچھ رقم خود رکھ لینا


سوال

ایک شخص مجھے 2000 روپے میں پروڈکٹ بیچنے کا مشورہ دیتا ہے، اب میں وہ پروڈکٹ 2500 روپے میں بیچتا ہوں اور اسے 2000 روپے دیتا ہوں، میں نے باقی 500 روپے لے لیے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ بيع صحيح ہے یا نہیں؟ اگر صحيح ہے تو اضافی 500 روپے کا مالک کون ہوگا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر آپ کو کسی شخص نے اپنی کسی چیز کے بیچنے کا وکیل بنایا تھا، تو وہ چیز  آپ آگے جتنی قیمت میں فروخت کریں گے ، وہ تمام رقم اصل مالک کے لوٹانے کے پابند ہوں گے۔ اس  رقم میں سے ایک روپیہ بھی آپ (وکیل)  کے لیے اصل مالک کی اجازت یا پیشگی معاہدہ کے بغیر استعمال کرنا درست نہیں ۔ لہذا  صورت مسئولہ میں آپ نے اگر مذکورہ شخص کی چیز  2500 روپے میں بیچی ہے، تو  آپ پر اس شخص کو 2500 روپے ہی دینا لازم ہیں، 500 روپے خود رکھ لینا جائز نہیں، اگر آپ  نے رکھ بھی  لیے تو  یہ  بیع تو درست  ہوجائے  گی،  البتہ  آپ  پر  500 روپے چیز کے مالک کودینا لازم ہوگا، البتہ اگر سائل اس کو صورتِ  حال بتادے اور  وہ  اپنی خوشی  سے یہ  اضافی  500 روپے آپ کو دے دیتا ہے تو آپ  کے  لیے رکھنا جائز ہوگا،اور آئندہ باہمی رضامندی سے کوئی واضح معاملہ طے کر لیا جائے۔

اگر سائل کا معاملہ اس چیز کے بیچنے میں وکالت کا نہیں تھا، بلکہ کوئی اور معاملہ تھا، تو اس کی مکمل وضاحت کے بعد دوبارہ سوال ارسال فرمائیں۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة و أوفاها الوكيل استحق الأجرة، و إن لم تشترط و لم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. و في الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعًا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة."

 (الکتاب الحادی عشر: الوکالة، الباب الثالث،الفصل االاول،المادة:1467،ج:573/3،ط:دارالجیل)

الموسوعہ الفقہیہ   میں ہے:

"الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر و لا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان."

(45/ 87،  الوکالۃ ، ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال، ط: طبع الوزارة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں