بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالزکاۃ کا زکوۃ کی رقم خود استعمال کرنے کا حکم


سوال

مجھےدوستوں نے ریال کی صورت میں  زکوٰۃ کی رقم دی ہے ،جو کہ غریبوں کے لیے ہے،جب کہ میرے اوپر بھی قرض ہے اور گاؤں میں والدین کی زمین جو مشترکہ ہے ،اس  کی کچھ خاصی پراپرٹی بھی نہیں  ہے۔

پوچھنایہ ہےکہ کیامیں  ان دوستوں کی  رقم جوانہوں نےمجھے دی ہے، میں خوداستعمال کرسکتا ہوں؟ کیوں کہ میں بھی بہت ضرورت مندہوں،جب کہ  ان کو یہ پتہ نہیں ہے کہ ان کی رقم  کہاں  استعمال ہوگی ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کو زکوۃ  کی ادائیگی کا وکیل بنایا ہے،تو  اس کے لیے  زکوۃ کا مال  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، اس کے پاس وہ مال بطورِ امانت ہے،   جسے مذکورہ لوگوں کی ہدایت کے مطابق صرف کرنا لازم ہوگا، تاہم اگر مذگورہ  لوگوں نے سائل  کو  مکمل اختیار دے دیا ہو ،اور یوں  کہہ دیا ہو کہ "جو چاہے کرو ،جسے چاہے دےدو"تو ایسی صورت میں اگر سائل مستحق زکوۃ ہے، تو خود سائل کے لیے مذکورہ زکوة کی رقم کا استعمال کرنا جائز ہوگا ورنہ نہیں۔

 البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وللوكيل بدفع ‌الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا اهـ.إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية."

(كتاب الزكاة،‌‌ شروط أداء الزكاة، ج:2، ص:227، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت."

‌‌(كتاب الزكاة، ج:2، ص،269، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100846

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں