دو صورتوں کا حکم در کار ہے :
1:زید چائنہ میں ہے اور لوگوں کے لیے کمیشن کے طور پر مال خریدتا ہے یعنی زید اگر عمر کے لیے دس گز کپڑا خریدے تو زید اس دس گز کپڑے پر اپنے لیے ایک روپیہ اجرت یا کمیشن منتخب کرتا ہے ،تو کیا زید کے لیے یہ ضروری ہے کہ عمر کو یہ بتادے کہ میں آپ سے دس گز کپڑ ے پر ایک روپیہ لیتا ہوں یا یہ بتانا ضروری نہیں ہے ؟
2:کبھی عمر زید کو بولتا ہے کہ میرے لیے پچاس گز کاٹن کا کپڑا خرید لو ،جب زید عمر کے لیے پچاس گز کاٹن خریدتا ہے تو کاٹن کا ایک گز 10روپے کا پڑتا ہے ،لیکن زید عمر کو بولتا ہے کہ کا ٹن کا ایک گز 12روپے کا پڑا ہے ، اس کے علاوہ ایک روپیہ میرا کمیشن ہے ۔کیا زید کے لئے یہ منافع جائز ہے یا نہیں ؟خصوصاً وہ 2روپے جو زید نے کپڑا 10کا خریدا اور عمر کو 12کا بولا ۔
1:صورت ِمسئولہ میں اگر زید ،عمر کا نمائندہ بن کر اس کے لیے خریداری کرتا ہے تو اس کے لیے پہلے سے طے کر کے کمیشن لینا جائز ہو گا اس کے بغیر کمیشن لینا جائز نہیں ۔
2:دوسری صورت میں زید کاایک گز 10روپے میں پڑنے کی صورت میں عمر کو یہ بتانا کہ ایک گز 12کا پڑا ہے جائز نہیں ہے ،کیوں کہ یہ جھوٹ اور خیانت ہے اور زید عمر کا نمائندہ (وکیل ) ہے اور وکیل امین ہوتا ہے ،اس کے لیے خیانت جائز نہیں ہوتی ،لہذا یہ دو روپے مزید لینا اس کے لیے جائز نہیں ،البتہ عمر کو بتا کر اپنی متعین کردہ کمیشن لے سکتا ہے ۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".
( الكتا ب الحادي عشر الوكالة، الباب الثالث ، الفصل الأول، المادة : 1467، 573/3 ، ط: دار الجيل )
و فيه ايضاّ:
"(المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."
(الكتاب الحادي عشر الوكالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة :1463، 561/3، ط:دارالجيل)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144308100375
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن