بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالشراء کا بچی ہوئی رقم اپنےپاس رکھنےکاحکم


سوال

زید نے حامد سے کہا کہ میرے لیے بازار سے ایک گھڑی خریدنا ایک ہزار روپے کی،(جوکہ عام بازار کی ریٹ اور قیمت تھی) ،حامد نے اس میں رعایت کروائی،اس ہزار  کی چیز آٹھ سو  میں خریدی تو  کیا  حامد کے لیے وہ دوسوروپےلینا جائز ہے؟جب کہ زید کو اس حوالے سے علم نہیں ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب زید نےحامد کوبازارسےگھڑی خریدنےکےلیےبھیجاہےتوایسی صورت میں حامد زید  کی طرف سےاس چیزکا وکیل بالشراء( خریداری کا وکیل) ہےاوروکیل امین(امانت دار)ہوتاہے،لہٰذاحامد نےجتنے روپےکی وہ گھڑی خریدی ہے ،اتنی ہی قیمت پرزیدکو دینالازم ہے،قیمت میں رعایت کرواکرحامد کےلیےوہ دوسو روپےخود رکھنا جائز نہیں۔

"شرح  المجلة لسلیم رستم باز"میں ہے:

"المادة (1463) - (‌المال ‌الذي ‌قبضه ‌الوكيل ‌بالبيع ‌والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

(كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان أحكام الوكالة، 613/2، ط:مكتبة رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں