بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے کہنے سے سنت کا ترک کرنا


سوال

کیا والدین کے کہنے پر سر پر عمامہ کے بجائے ٹوپی پہن سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں عمامہ یا ٹوپی  پہننا سننِ  عادیہ میں سے ہیں،یعنی تسلسل  و دوام کے ساتھ پہننے  کی وجہ سے یہ کام رسول اللہ ﷺ  کی عادت بن گئےتھے،امورِ  عادیہ میں بھی آپ  علیہ  السلام  کی اتباع کرنا سنت  اور خیر وبرکت کا باعث ہے،ننگے سر  رہنا خلافِ  مروت بھی ہےاور صلحاء واتقیاء   کی روش بھی نہیں، البتہ  چوں کہ یہ مکملاتِ دین اور  شعائرِ دین میں سے نہیں  ہے؛ اس لیے اس پر عمل کرنے والے کو تو ثواب ملے گا،  لیکن عمل نہ کرنے  والا   گناہ گار نہیں ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں  والدین  کے کہنے پر عمامہ کے بجائے  ٹوپی پہن سکتے ہیں ،البتہ والدین کو سمجھایا جائے کہ  جس طرح ٹوپی پہننا حضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی سننِ عادیہ میں سے ہے ،اسی طرح عمامہ پہننا بھی   حضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی سننِ عادیہ میں سے ہے ،اور وہ اپنی اولاد پر کسی ایک سنت پر عمل کرنے پر اصرار نہ کریں ،بلکہ اپنی اولاد کو آزادی سے دین پر عمل کرنے دیں۔

والدین کی بات کس حد تک ماننی چاہیے؟ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے۔

سوال: ماں باپ کی بات کس حد تک ماننا ضروری ہے؟

ج… والدین کی فرماں برداری اور ان کی خدمت کے بارے میں واقعی بڑی سخت تاکیدیں آئی ہیں، لیکن یہ بات غلط ہے کہ والدین کی ہر جائز و ناجائز بات ماننے کا حکم ہے، بلکہ والدین کی فرماں برداری کی بھی حدود ہیں، میں ان کا خلاصہ ذکر کردیتا ہوں:

اوّل:… والدین خواہ کیسے ہی بُرے ہوں، ان کی بے ادبی و گستاخی نہ کی جائے، تہذیب و متانت کے ساتھ ان کو سمجھا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ سمجھانا ضروری ہے، لیکن لب و لہجہ گستاخانہ نہیں ہونا چاہیے، اور اگر سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

دوم:… اگر وہ کسی جائز بات کا حکم کریں تو اس کی تعمیل ضروری ہے بشرطیکہ آدمی اس کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اس سے دُوسروں کے حقوق تلف نہ ہوتے ہوں، اور اگر ان کے حکم کی تعمیل اس کے بس کی بات نہیں یا اس سے دُوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے تو تعمیل ضروری نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جائز نہیں۔

سوم:… اگر والدین کسی ایسی بات کا حکم کریں جو شرعاً ناجائز ہے اور جس سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، تب بھی ان کے حکم کی تعمیل جائز نہیں، ماں باپ تو ایسا حکم دے کر گناہ گار ہوں گے، اور اولاد ان کے ناجائز حکم کی تعمیل کرکے گناہ گار ہوگی،  آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشادِ گرامی ہے: ’’لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق‘‘  یعنی جس چیز میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو اس میں کسی مخلوق کی فرماں برداری جائز نہیں، مثلاً: اگر والدین کہیں کہ نماز مت پڑھو، یا دِین کی باتیں مت سیکھو، یا داڑھی مت رکھو، یا نیک لوگوں کے پاس مت بیٹھو  وغیرہ وغیرہ، تو ان کے ایسے اَحکام کی تعمیل جائز نہیں، ورنہ والدین بھی جہنم میں جائیں گے اور اولاد کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔

اگر والدین یہ کہیں کہ: ’’بیوی کو طلاق دے دو‘‘  تو یہ دیکھنا چاہیے کہ بیوی قصوروار ہے یا نہیں؟ اگر بیوی بے قصور ہو تو محض والدین کے کہنے سے طلاق دینا جائز نہیں، اگر والدین کہیں کہ: ’’بیوی کو تنہا مکان میں مت رکھو‘‘  تو اس میں بھی ان کی تعمیل روا نہیں،  البتہ اگر بیوی اپنی خوشی سے والدین کے ساتھ رہنے پر راضی ہو تو دُوسری بات ہے، ورنہ اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کو علیحدہ مکان دینا شریعت کا حکم ہے، اور اس کے خلاف کسی کی بات ماننا جائز نہیں۔

چہارم:… والدین اگر ماریں پیٹیں، گالی گلوچ کریں، بُرا بلا کہیں یا طعن و تشنیع کرتے رہیں، تو ان کی ایذاوٴں کو برداشت کیا جائے اور ان کو اُلٹ کر جواب نہ دیا جائے۔

پنجم:… آپ نے جو لکھا ہے کہ: “اگر والدین کہیں کہ ....اپنی اولاد کو مار ڈالو تو ...اولاد کو مار ڈالنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور میں لکھ چکا ہوں کہ ناجائز کام میں والدین کی اطاعت جائز نہیں...‘‘

(آپ کے مسائل اور ان کا حل، ج: 8، ص:558، ط:مکتبہ لدھیانوی)

مسلم شریف میں ہے :

"عن جابر بن عبد الله أن النبى صلى الله عليه وسلم دخل يوم فتح مكة وعليه عمامة سوداء."

(باب جواز دخول مكة بغير إحرام ج:4،ص: 111 ،ط: دار الجيل )

مجمع الزوائد میں ہے:

"عن ابن عمر قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يلبس قلنسوة بيضاء.رواه الطبراني وفيه عبد الله بن خراش وثقه ابن حبان وقال : ربما أخطأ وضعفه جمهور الأئمة وبقية رجاله ثقات."

(كتاب اللباس، باب في قلنسوة ،ج:5 ،ص:121 ،ط: دار الفكر)

حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"و السنة نوعان: سنة هدى كالأذان والإقامة وتركها يوجب الإساءة وسنة زائدة، وتركها لا يوجبها كسنة النبي صلى الله عليه وسلم في قعوده وقيامه ولبسه وأكله وشربه ونحو ذلك كما في السراج، ولكن الأولى فعلها لقوله تعالى: {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ}."

(کتاب الصلاة، باب الأذان ,ص:194،ط:دارالكتب العلمية)

اصول السرخسی میں ہے:  

"قال مكحول رحمه الله: السنة سنتان سنة أخذها هدى وتركها ضلالة وسنة أخذها حسن وتركها لا بأس به فالأول نحو صلاة العيد والأذان والإقامة والصلاة بالجماعة ولهذا لو تركها قوم استوجبوا اللوم والعتاب ولو تركها أهل بلدة وأصروا على ذلك قوتلوا عليها ليأتوا بها والثاني نحو ما نقل من طريقة رسول الله صلى الله عليه وسلم في قيامه وقعوده ولباسه وركوبه."

( كتاب الصلوة، فصل في بيان المشروعات من العبادات وأحكامها،ج :1 ،ص :114، ط: دارالمعرفة)

تلبیس إبلیس  میں ہے:

"ولايخفى عَلَى عاقل أن كشف الرأس مستقبح وفيه إسقاط مروءة وترك أدب وإنما يقع فِي المناسك تعبدًا لله وذلّا لَهُ."

(الباب العاشر: فِي ذكر تلبيسه عَلَى الصوفية من جملة الزهاد،ذكر تلبيس إبليس عَلَى الصوفية فِي الوجد، ص: 232 ، ط: دار الفكر )

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410100844

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں