بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکالت بالاجرت کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لوگ ہمارے پاس انویسٹمنٹ لاتے ہیں کاروبار کے لئے۔ہم اس انویسٹمنٹ سے مختلف اشیاء خرید کر ادھار پر بیچتے ہیں اور اس کے بدلہ کچھ اجرت لیتے ہیں  ۔

مثلا دس لاکھ روپے ہمارے انویسٹر کے ہیں ،ہم اس کی صورت یہ کرتے ہیں کہ اس انویسٹر کی طرف سے وکیل بن کر گاڑی خرید لیتے ہیں پھر وہ ہمارے قبضہ میں آجاتی ہے،  پھر ہم اس گاڑی کو 12 ماہ کی ادھاری پر مثلًا 12  لاکھ چار ہزار کی بیچتے ہیں  اور گاڑی اس شخص کے حوالہ کر دیتے ہیں اب اس کی مرضی کہ وہ گاڑی آگے بیچے یا اپنے استعمال میں رکھے تو اس میں پروفٹ دو لاکھ چار ہزار ہوا پھر  جو پروفٹ ہوتا ہے   اس کو  12  ماہ پر تقسیم کرتے ہیں پھر ہر مہینہ پروفٹ دیتے ہیں جو کہ سترہ ہزار روپے بنتا ہے پھر جو اصل رقم ہے اس کا چیک بارہ مہینے کے بعد کا دیتے ہیں جو کہ دس لاکھ روپے ہیں ۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح کی صورت درست ہے یا نہیں ؟

جواب

سوال میں معاملہ کی جو تفصیل ذکر کی گئی ہے یہ صورت وکالت  کی  ہے اور سمجھنا چاہیئے کہ وکالت جس طرح بغیر اجرت کے جائز   ہے ، اسی طرح وکالت کے بدلہ اجرت  لینا  بھی جائز ہے، لہذا   اگر  سائل اپنے انویسٹر سے پہلے سے اپنی  اجرت طے کر لے  کہ میں آپ کے لیے گاڑی خریدکر آگے فروخت کروں گا اور  اس کے عوض اتنی اجرت لوں گا اور پھر وہ جو رقم انویسٹر سے  لیتا ہے اور  بطور وکیل اس  رقم سے  گاڑی خرید کر آگے لوگوں کو ادھاری پر بیچتا ہے ، اور اپنی  طے شدہ اجرت   لیتا ہے تو یہ جائز ہے اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں۔ 

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".

(الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث،الفصل االاول،المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں