بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

واجب کے رہ جانے کی صورت میں نماز کا حکم


سوال

میری عمر اس وقت تقریباً ۴۹ کے قریب ہے لیکن میں نے لا علمی کی وجہ سے (اللہ مجھے معاف فرماۓ وتر کی تیسری رکعت میں ہمیشہ سورہ فاتحہ کے بعد دعاۓقنوت پڑھی ہے اور کوئی دوسری سورہ نہیں پڑھی ۔ کیوں کے مجھے علم نہیں تھا تو پانچوں بچوں کو بھی یہ ہی سکھایا۔ اب جب علم ہوا تو خود بھی اپنی اصلاح کی اور بچوں کو بھی بتایا ۔ کیا مجھے سارے وتر لوٹانے ہوں گے۔ اور بچوں کا غلط پڑھنے کا گناہ مجھے ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی شخص نے نماز پڑھی اور  نماز میں کوئی واجب رہ گیا (مثلاً: وتر کی نماز  کی تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت کا ملانا واجب ہے) اور سجدہ سہو بھی نہیں کیا  تو وقت کے اندراس نماز کا اعادہ واجب ہو تا ہے اور  وقت کے گزر جانے کے بعد وجوبِ اعادہ ساقط ہو جاتا ہے، البتہ اعادہ کرنا مستحب ہوتا ہے،تاہم توبہ و استغفار  کرنالازم  ہو گا۔

صورت مسئولہ میں  وتر کی تیسری رکعت سورہ فاتحہ کے بعد بغیر سورت ملائے پڑھنے کی صورت میں اس نماز کا وقت کے اندر اعادہ لازم تھا وقت کے گزرنے کے بعد اب اعادہ لازم نہیں ہے، مستحب ہے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  میں ہے:

"وإعادتها بتركه عمداً" أي ما دام الوقت باقياً وكذا في السهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها حتى  خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم، ويكون فاسقاً آثماً، وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لايتكرر، كما في الدر وغيره. ويندب إعادتها لترك السنة".

(ص: 247،ط:دار الكتب العلمية بيروت)

وفیہ ایضاً: 

"كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب ".

(ص: 440، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101872

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں