بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معتکف کے لیے واجب غسل کے علاوہ کے لیے مسجد سے باہر نہ جانے کی وجہ


سوال

اعتکاف میں غسل واجب کے علاوہ غسل کی ممانعت کیو ں ہے، حال آں کہ کبھی بدبو پیدا ہوتی ہے  جو دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے؟

جواب

مسنون  اعتکاف میں واجب غسل کے علاوہ غسل کے لیے مسجد کی حدود سے باہر جانا جائز نہیں ہے, اس سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا،کیوں اعتکاف کے دوران طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر باہر نکلنا جائز نہیں، طبعی ضرورت کا مطلب یہ ہے کہ وہ کام جس کا پایا جانا لازمی ہو اور وہ ضرورت مسجد میں پورا کرنا ممکن نہ ہو ، جسم میں بدبو پیدا ہوجانے کی وجہ سے غسل کرنا نہ طبعی ضرورت میں داخل ہے اور نہ ہی شرعی ضرورت میں؛ لہذا اس کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں۔

اگر گرمی یا بدبو کی وجہ سےغسل کی شدید ضرورت ہو تو  مسجد میں بڑا برتن رکھ  کر اس میں بیٹھ کر غسل کرلے اس طور پر کہ  استعمال کیا ہوا پانی  مسجد میں بالکل نہ گرے، یا تولیہ بھگو کر نچوڑ کر  بدن سے میل صاف کرلے، البتہ یہ ممکن ہے کہ جب پیشاب کا تقاضا ہو تو  پیشاب کے ارادے سے باہر نکل کر قضاءِ حاجت سے فارغ ہوکر وہیں غسل خانے میں دو چار لوٹے بدن پر ڈال لے،  جتنی دیر میں وضو ہوتا ہے اتنے وقت میں بدن پر پانی ڈال کر آجائے،لیکن اس دوران  صابن وغیرہ کے استعمال کی اجازت نہیں ہے، کیوں کہ اس میں وضو سے زیادہ وقت صرف ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 444):
"(وحرم عليه) أي على المعتكف اعتكافًا واجبًا، أما النفل فله الخروج؛ لأنه منه لا مبطل، كما مر (الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول وغائط وغسل لو احتلم، ولايمكنه الاغتسال في المسجد، كذا في النهر (أو) شرعية كعيد وأذان لو مؤذنًا وباب المنارة خارج المسجد و (الجمعة وقت الزوال".

و في الرد:

"(قوله: طبيعية) حال أو خبر لكان محذوفة أي سواء كانت طبيعية أو شرعية وفسر ابن الشلبي الطبيعية بما لا بد منها وما لايقضى في المسجد". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201972

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں