وضو اور غسل میں واجبات کیوں نہیں ہیں؟
عبادت کی دو قسمیں ہیں:
(۱) مقصودہ: جیسے نماز، روزہ کہ ان سے مقصود حصولِ ثواب ہے، انہیں اگر بغیر نیت ادا کیا جائے تو یہ صحیح نہ ہوں گے؛ اس لیے کہ ان سے مقصود ثواب تھا اور جب ثواب مفقود ہو گیا تو اس کی وجہ سے اصل شے ہی ادا نہ ہوگی۔
(۲) غیر مقصودہ: وہ جو دوسری عبادتوں کے لیے ذریعہ ہوں، جیسے نماز کے لیے چلنا، وضو، غسل وغیرہ۔
عموماً عبادتِ غیر مقصودہ میں واجبات نہیں ہوتے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شریعت کا ہر حکم کسی خاص دلیل سے ثابت ہوتا ہے، واجب کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ دلیل ظنی الثبوت و قطعی الدلالۃ ہو؛ اس لیے وضو وغیرہ میں واجبات نہیں پائے جاتے۔
حلبی كبیر(ص: ۱۴):
"و لیس للغسل و لا للوضوء واجب؛ فلذا لم یذكرہ، قیل: لأنه لوكان لساوى التبع الأصل أي الوضوء أو الغسل الصلاة، واعترض علیه بعدم لزوم المساواۃ لثبوت التفاوت بوجه آخر و هو أنه لایلزم بالنذر بخلاف الصلاۃ."
البحر الرائق (۳۴/۱):
"أنّ الوضوء لاواجب فیه؛ لما أن ثبوت الحکم بقدر دلیله و الدلیل المثبت و هو ماکان ظني الثبوت قطعي الدلالة، و ما کان بمنزلته کأخبار الآحاد التي مفھومھا قطعي الدلالة ولم یوجد في الوضوء."
فقط و الله اعلم
فتوی نمبر : 144111200845
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن