بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1445ھ 20 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

واجب التصدق اموال کا مصرف اور مدرسے کے دیگر انتظامی امور کے متعلق مختلف احکامات


سوال

1:- واجب التصدق رقوم (مثلًا سودی رقم، یا لقطہ وغیرہ اتفاقًا) کوئی شخص ادارے میں جمع کرادے تو کیا انہیں زکوٰۃ کے مصرف میں ہی صرف کرنا واجب ہوگا یا تعمیرات اورتنخواہوں میں بھی صرف کیا جاسکتاہے؟

2:- بعض علماء نے مذکورہ رقوم سے غیر مسلم کی مدد کرنے کی اجازت دی ہے، اگر اس رقم سے غیر مسلم فقیر کی مدد کی جاسکتی ہے تو پھر اس رقم کے واجب التصدق ہونے کا کیا مطلب؟ اس لیے کہ واجب صدقات (جیساکہ صدقہ فطر وغیرہ) غیرمسلم فقیر کو دینے کی اجازت نہیں ہے، اور اگر غیر مسلم فقیر کو سودی یا رشوت کی رقم دینے سے بھی واجب صدقہ ادا ہوجاتاہے تو پھر اس رقم سے تعمیرات کرنا، کنواں کھدوانا یا اساتذہ کی تنخواہ دینا کیوں درست نہیں ہے! جب کہ ان مصارف میں صرف کرنا بھی صدقہ کہلاتاہے؟

3:- کسی نے ایسی چیز مدرسے کے حوالے کی جو بعینہ تو اس وقت کار آمد نہیں یااس کی ضرورت نہیں ہے، (مثلًا ایسی کتابیں وقف کردیں جن کی بالکل ضرورت نہیں ہے) لیکن اگر اسے فروخت کیا جائے تو خاصی قیمت حاصل ہوسکتی ہے، کیا اسے فروخت کرنے کی اجازت ہوگی؟ اور فروخت کرکے اس سے حاصل شدہ رقم کہاں صرف کی جائے گی؟

4:- ادارے کی طرف سے مستحق طلبہ یا دیگر ضروریات کے لیے خریدی گئی وہ اشیاء جو اب ان کے استعمال کے قابل نہ ہوں، لیکن انہیں فروخت کرکے کچھ رقم حاصل کی جاسکتی ہو، (خواہ وہ طلبہ مستحقِ زکوٰۃ ہوں اور انہیں دی گئی اشیاء زکوٰۃ کی مد میں ہوں یا عطیات کی مد سے خریدی گئی اشیاء ہوں) تو اس حاصل شدہ رقم کا کیا حکم ہوگا؟

5:- مدرسے میں اچانک کوئی بڑا جانور یا اتنا تیار کھانا آجائے،  جو اس وقت مستحق طلبہ کی ضرورت سے زائد ہو  اور اسے محفوظ رکھنے کی کوئی صورت نہ ہو  اور دوسرے وقت تک وہ کھانا خراب ہونے کا اندیشہ ہو، یا جانور ذبح کرنے کے بعد بقیہ گوشت محفوظ کرنے کی ترتیب نہ ہو تو اس کا کیا مصرف ہوگا؟ کیا اساتذہ یا صاحبِ حیثیت لوگوں میں صرف کیا جاسکتاہے؟ یا اسے قیمتًا فروخت کرنا ضروری ہوگا؟ اور اس رقم کا مصرف کیا ہوگا؟ کیا کسی مستحق طالب علم سے یک لخت اس کی تملیک کرائی جاسکتی ہے؟ اور اس تملیک کے بعد یہ کھانا وغیرہ تمام طلبہ (مستحق و غیر مستحق طلبہ) یا مدرسے کے عملے کو جاری کیا جاسکتاہے؟

6:- ادارے نے کوئی چیز خریدی، اور اب وہ استعمال کے بعد اپنی مدت پوری کرچکی ہے، اور اس کی فی الوقت ضرورت نہیں ہے، ایسی صورت میں اس چیز کو فروخت کرکے حاصل ہونے والی رقم کہاں کہاں استعمال کی جاسکتی ہے؟ 

جواب

1:واجب التصدق رقوم (جیسےبینک کی سودی رقم،لقطہ وغیرہ) مصرف زکوٰۃ میں خرچ کرناضروری ہےیعنی کسی مستحقِ زکوٰۃ فقیرکو مالکانہ طورپر دیناضروری ہے،تعمیرات و اساتذہ کی تنخواہوں میں استعمال کرناجائز نہیں۔

2:واجب التصدق رقوم  غیرمسلموں کودینا جائز نہیں ہے، البتہ نفلی صدقات دینے کی گنجائش ہے،نیزواضح رہے کہ واجب التصدق رقوم (مثلاً سودی رقم وغیرہ)اور واجب صدقہ (مثلاًکفارہ ،فدیہ وغیرہ) کامصرف فقراء ہیں، اس کوتعمیرات تنخواہوں یا دیگر رفاہی کاموں میں استعمال کرنادرست نہیں، واجب التصدق اموال کااگرچہ  صدقہ کرناواجب ہے، لیکن اس میں ثواب کی نیت کرناجائزنہیں،  بلکہ اگرکسی نے ثواب کی نیت کی، تو فقہاء کی تصریحات کے مطابق،  اس پر کفر کا اندیشہ ہے، اس  میں صدقہ کرنے والےکاارادہ صرف فراغ الذمہ ہوتاہے۔

3:وقف شدہ چيزيں فروخت كرناجائز نہیں، واقف نے جس مقصد کےلئے جو چیز  وقف کی ہو، وہ اسی  مقصد کے مطابق استعمال کرنا ضروری ہے، الا یہ کہ وہ چیز ایسی ہوجائےکہ واقف نے جس مقصد کےلیے وقف کی تھی، اس سے وہ مقصد بالکلیۃ  حاصل نہ ہورہا ہو اورآئندہ بھی حاصل ہونے کاامکان نہ ہو، لہٰذاوقف شدہ کتابیں وغیرہ فروخت کرناجائز نہیں، اگر فی الحال ضرورت نہیں تو آئندہ ضرورت پڑسکتی ہے، اور اگر آئندہ بھی ضرورت پڑنے کی امید نہ ہو، تو قریب کسی دوسرے مدرسے کو دے دی جائیں ۔

4:ادارے نے مستحق طلباء یادیگر ضروریات کےلیےجو اشیاء خریدی ہیں،اگر وہ اشیاء مستحق طلباء کوبطور ملکیت دی گئیں تھیں، تو یہ طلباء کی ملکیت ہیں، ان کو اختیار ہوگا کہ وہ جس طرح استعمال کریں، ہاں اگر طلباء   اپنی طرف سے ادارہ کو اجازت دےدیں تو اس کے بعدادارے کےلیے فروخت کرنا جائز ہوگا، اور اگر طلباء سے تملیک کرانے کے بعد زکوٰۃ کی رقم سے یا عطیات کی رقم سے خریدی گئیں ہو ں، تو ان اشیاء کوبیچ کر اس سے حاصل شدہ رقم  عطیات کے مصرف میں  استعمال  کی جاسکتی ہے۔

5: اگر جانور  یا تیار  کھانا نفلی صدقہ کی مد میں ہو  اور طلبہ کےلیے یہ جا نور اور کھانا دیاگیا ہو،  تو ایسی صورت میں طلبہ کے علاوہ غیر طلبہ کو یعنی اساتذہ یا دیگر عملہ جات کو اس میں سے دینا جائز نہیں،اور اگر دینے والے کی طرف سے صرف طلبہ کی شرط نہ ہو، بلکہ طلبہ غیر طلبہ سب کےلیے وہ چیز دی گئی ہو تو ایسی صورت میں طلبہ اور اساتذہ وغیرہ سب کو اس میں سے دینا اور کھلانا درست ہوگا،  اور اگرجانور یا تیار کھانا صدقہ واجبہ  یعنی زکوٰۃ، کفارہ وغیرہ کا ہے، تو  وہ  صرف مستحقِ زکوٰۃ طلباء کو کھلانا ضروری ہوگا۔

واضح رہےکہ  جانور یا تیارکھانا اتنا لینا چاہیے جتنی ضرورت ہے، اس سے زیادہ کسی دوسرے مدرسے میں بھیجنا چاہیے، البتہ اگراتفاق سے زیادہ کھانا یا اتنا بڑا جانور لےلیاجو ضرورت سے زائد ہے اورمحفوظ کرنے کاکوئی انتظام بھی نہیں ہے تو اگر صدقات واجبہ ہے تو اس میں حیلہ تملیک کے بعد مدرسہ کےغیر مستحقِ زکوٰۃ طلباء ، اساتذہ اور دیگر عملہ کو بھی دیاجاسکتاہے، یا اسے بیچ کر اس سے حاصل شدہ  رقم  دوسرے وقت کےکھانے میں بھی  خرچ کی جاسکتی ہے۔

6:اگرادارے نے مدرسے کےلیے کوئی چیز خریدی اور اب اس کی بالکل ضرورت نہیں ہے،یاقابل  استعمال نہیں رہی اورآئندہ بھی استعمال میں آنے کی امکان نہ ہو تو  فروخت کرکے اس کی رقم مدرسے کے فنڈ میں جمع کی جائے یا قریب دوسرے مدرسہ میں دی جائے جہاں اس چیز کی ضرورت ہو اور اگر قابل استعمال ہے یا آئندہ استعمال میں آسکتی ہےتو اس صورت میں فروخت کرنا درست نہیں۔

مصنف لإبن أبي شیبۃ میں ہے:

"حدثنا أبو معاوية، عن حجاج، عن سالم، عن ابن الحنفية، قال: «كره الناس أن يتصدقوا على المشركين»، فأنزل الله تعالى: {ليس عليك هداهم} [البقرة: 272] قال: «فتصدق الناس عليهم۔"

(‌‌ما قالوا في الصدقة في غير أهل الإسلام/ج:2/ص:401/رقم:10399/ط:مکتبۃ الرشید)

 بذل المجہودميں ہے:

"فالحاصل أن التصدق من مال حرام غير مقبول، حتى قال بعض علمائنا: من تصدق بمال حرام يرجو الثواب كفر.قلت: فإن قيل: صرح الفقهاء بأن من اكتسب مالاً بغير حق، فإما أن يكون كسبه بعقد فاسد، كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصي والطاعات، أو بغير عقد، كالسرقة والغصب والخيانة والغلول، ففي جميع الأحوال المال الحاصل له حرام عليه، ولكن إن أخذه من غير عقد ولم يملكه يجب عليه أن يرده على مالكه إن وجد المالك، وإلَّا ففي جميع الصور يجب عليه أن يتصدق بمثل تلك الأموال على الفقراء، فهذا القول منهم يخالف الحديث المذكور، فإن الحديث دال على حرمة التصدق بالمال الخبيث، وقد نص الله تعالى في كتابه: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ} (1) الآية، وقولهم بوجوب التصدق معارض بالحديث والآية، فما وجه التوفيق بينهما؟

قلنا: الآية والحديث يدلان على حرمة التصدق بالمال الحرام لأجل تحصيل الأجر والثواب، وقد أشير إليه في الحديث بقوله: "لا يقبل الله" فإذا تصدق بالمال الحرام يريد القبول والأجر يحرم عليه ذلك، وأما إذا كان عند رجل مال خبيث، فإما إن ملكه بعقد فاسد، أو حصل له بغير عقد، ولا يمكنه أن يردّه إلى مالكه، ويريد أن يدفع مظلمته عن نفسه، فليس له حيلة إلَّا أن يدفعه إلى الفقراء, لأنه لو أنفق على نفسه فقد استحكم ما ارتكبه من الفعل الحرام۔"

 (کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء:ج:1ص:359: تحت رقم الحدیث:59:ط:بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن) فبطل شرط واقف الكتب، الرهن شرط كما في التدبير۔"

وكتب تحتہ:

"(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك درر۔۔۔۔وفي شرح الملتقى: وجاز بيع المصحف المخرق وشراء آخر بثمنه۔"

(كتاب الوقف/ج:4/ص:351/ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار۔"

(کتاب الوقف۔مطلب في ‌استبدال ‌الوقف/ج:4/ص:384/ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وفي المنتقى بواري المسجد إذا خلقت فصارت لا ينتفع بها فأراد الذي بسطها أن يأخذها ويتصدق بها أو يشتري مكانها أخرى فله ذلك وإن كان غائبا فأراد أهل المحلة أن يأخذوا البواري ويتصدقوا بها بعدما خلقت لم يكن لهم ذلك إذا كانت لها قيمة وإن لم تكن لها قيمة لا بأس۔"

(کتاب الوقف/ج:2/ص: 458/ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144302200034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں