میرے دوست کےبیٹے کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے،دوست کے بیٹے کی بیوی ناراض ہوکر اپنے والدین کے گھر چلی گئي،دوماہ بعد شوہر ( دوست کے بیٹا) نے وائس میسج پر کہاکہ ”میں تمہیں ایک طلاق دیتا ہوں“ دوست کے بیٹے نے یہ پہلی ہی مرتبہ طلاق دی،پھر آٹھ دس دن بعد عدت کے اندرشوہر ( دوست کے بیٹا) نے وائس میسج کیا کہ ”میں تم سے رجوع کرتاہوں“ اب سوال یہ ہے کہ اس طرح رجوع ہوگیا یا نہیں؟اگر لڑکی یہ کہے کہ میں نے سُنا ہی نہیں تو کیا حکم ہے؟اور کیا اس رجوع کےدرست ہونے کے لیے لڑکی کا اس رجوع کو قبول کرنا ضروری ہے یانہیں؟
واضح رہے کہ شوہر کے رجوع درست ہونے کے لیے نہ بیوی کے رجوع کے الفاظ کا ُسننا ضروری ہےاور نہ بیوی کارجوع کو قبول کرنا ضروری ہے،بیوی کا رجوع کے الفا ظ سُنے اور قبول کیے بغیر بھی شوہر کا رجوع درست ہو جاتا ہے، بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع کیا جائے،اس لیے صورت مسئولہ میں جب سائل کے دوست کے بیٹے نےوائس میسج پر مذکورہ الفا ظ کہ ”میں تمہیں ایک طلاق دیتا ہوں“ سے طلاق دینے کے بعد عدت کے اندروائس میسج کے ذریعے ان الفاظ سے رجوع کرلیا کہ ”میں رجوع کرتا ہوں“،تو سائل کےدوست کے بیٹے کا رجوع درست ہوگیا۔تاہم آئندہ سائل کے دوست کے بیٹے کے پاس دو طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة."
(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما .....، ج: 1، ص: 468، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
''(وندب إعلامها بها) لئلا تنكح غيره بعد العدة، فإن نكحت فرق بينهما وإن دخل، شمني. (و ندب الإشهاد) بعدلين ولو بعد الرجعة بالفعل (و) ندب (عدم دخوله بلا إذنها عليها) لتتأهب وإن قصد رجعتها لكراهتها بالفعل، كما مر...."
(كتاب الطلاق، باب الرجعة، ج: 3، ص: 401، ط: دار الفكر)
بدائع الصنائع میں ہے:
" أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا، وعند الشافعي زوال حل الوطء من أحكامه الأصلية؛ حتى لا يحل له وطؤها قبل الرجعة، وإليه مال أبو عبد الله البصري."
(كتاب الطلاق، بيان شرعية الرجعة، ج: 3، ص: 180، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602101316
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن