بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وہم کا علاج


سوال

 میں جامعہ ہذا کا فاضل ہوں، 2010ء  میں میری فراغت ہوئی ہے ، فراغت کے سال سے لے کر ابھی تک وہم کی بیماری میں مبتلاہوں، جس کی وجہ سے زندگی سے بہت تنگ آچکاہوں؛ کیوں کہ ایک طرف شریعت آخرت کے لیے تیاری مانگتی ہے ،جب کہ اس بیماری کے ہوتے ہوئے تیاری ناممکن ہے دوسری طرف خودکشی کی اجازت نہیں دیتا ؛ لہذاساری زندگی ایک عجیب غم کی حالت میں گزرتی ہے۔ عام دارالافتاءوں سے جب مراجعت کرتے ہیں تو چوں کہ آپ کی مشکل سے ناواقف ہوتے ہیں، اس لیے وہ عوام کو جو فتوی دیتے ہیں وہی آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں،  جوکہ ایک وہمی عالم کے لیے تشفی بخش بالکل نہیں ہوتا، جب کہ اجتہادی فکرکے حامل علماء کے ساتھ ملاقات حالات کی وجہ سے مشکل نہیں، بلکہ ناممکن ہے؛  لہذاآپ کے سامنے بندہ اپنی کیفیت رکھ کر آپ کا تعاون چاہتاہے۔

مجھے اکثروہم اور حقیقت میں فرق کرنا مشکل ہوتاہے کہ کیاوہم ہوتاہے اور کیا حقیقت ؟ کیوں کہ عام لوگ جس چیز کو وہم تصورکرتے ہیں، میں اس کو دلائل سے ثابت کرسکتاہوں، لہذا ایسی کیفیت میں  "الیقین لایزول بالشک "کے قاعدے سے میری مشکل حل نہیں ہوتی،  کیوں کہ عام علماجس چیز کوشک کہتے ہیں وہ میرے نزدیک یقین کادرجہ رکھتاہے، اس لیے اکثرجب مفتیانِ کرام کے سامنے دلائل رکھتاہوں تو وہ بھی کنفیوز ہوجاتے ہیں کہ واقعی یہ شک تو شک نہ رہا ۔

 میرے اور عام لوگوں کے درمیان فرق یہ ہوتاہے کہ مجھے ہرہر چیز کی پاکی اور ناپاکی پر فکر رہتی ہے، یہاں تک کہ مجھے اپنے ہر ہر قدم پر نظر رہتي ہے کہ کس کس ناپاکی پر رکھ دیا اور جس ناپاکی پر گزرتا ہوں وہ کبھی بھی ذہن سے نہیں نکلتی، اس لیے جب بھی یہی جوتا دوبارہ گیلا ہو کر اگلے جوتے پر پڑتاہے تو وہ بھی ناپاک ہوجاتاہے لہذا اسے دھوئے بغیر چارہ کار نہیں ہوتا اسی طرح جسم کپڑے گھر کے برتن گھر کے افراد کے اعضا اور کپڑوں پر نظررہتاہے کہ کہاں کہاں ٹچ ہوتے ہیں یہا ں تک کہ بچہ گیلاہاتھ ناپاک خشک پاؤں کولگالیتے ہیں تو فورادھلواتاہوں وغیرہ وغیرہ ۔

3. اکثرناپاکی کی گہرائی تک ذہن جاتاہے، جس کی وجہ سے جو چیز عوام کو پاک نظر آتاہے مجھے ناپاک نظر آتاہے مثلا گھر کے سب لوگ سب چپل کو پاک تصور کرتے ہیں ،جب کہ مجھے ہر ہر باتھ روم کا پتہ ہوتا ہے کہ کس وقت کس باتھ روم میں پیشاب جمع تھا، جس کےبعد سارے چپل نہیں دھوئے گئے ۔

4.  کبھی کبھار ہاتھ کسی چیز سے ناپاک ہو جاتاہے، کئی گھنٹوں یاایک دن کے بعد یاد آجاتاہے، اب ناپاک ہونے سے یاد آنے تک جس جس گیلے چیز کوہاتھ میں اٹھایاتھا وہ یاد آجاتے ہیں یاہاتھ کو تو دھویا تھا، لیکن اس ہاتھ کے چھینٹے ڈائرکٹ کپڑوں پر پڑگئے یازمین پر لگ کر دوبارہ کپڑوں پر لگ گئے؛  لہذاجن جن گیلی چیزوں کو پکڑا تھاان سب اور کپڑوں کو دھونے ، اکثرغسل کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔

  5. وضو غسل یاکسی ناپاک چیز کے دھونے میں وقت اس لیے لگاتاہوں کہ ناپاک چیز کے مستعمل چھینٹوں سے کپڑوں یاجسم کو بچانا اکثر مشکل یا ناممکن ہوتاہے، جب کہ سب مفتیان انہی چھینٹوں کو ناپاک قراردیتے ہیں اور یہ چھینٹے جس چیز کے ساتھ لگتے ہیں ان کو بھی ناپاک قرار دیتے ہیں۔

6. اکثردوسروں کے اعضا پر فکر رہتی ہے جوکہ یقینی طور پر ناپاک ہو کر انہی گیلے ہاتھوں کو میرے کپڑوں کو لگاتے ہیں۔

آپ حضرات سے مؤدبانہ گزارش کی جاتی ہے کہ کچھ ایسے اصولی قواعد سے آگاہی فرمائیں جو ہم جیسے لو گوں کے لیے آسانی کے اسباب بن جائیں۔

جواب

 اسلام دینِ رحمت  ودین فطرت ہے،اللہ تعالی نے انسان کو ایسا کوئی حکم نہیں دیا ہے جو انسان کے طاقت واستطاعت سے باہر ہو،  ۱۴ سو سال سے بند گانِ خدا  دینِ اسلام پر عمل کرتے آرہے ہیں ،   اس پر عمل کرنے کی وجہ سے نہ کبھی  کسی نے خودکشی كي اور نہ کسی کو خودکشی   کا  خیال آیا ، حالاں کہ ہم سے پہلے لوگ ہم  سے زیادہ فکر آخرت رکھتے تھے، زیادہ متقی وپرہیز گار تھے، زیادہ پاکی وناپاکی کا خیال رکھنے والے تھے اور ہم سے زیادہ عبادت گزار  تھے، لیکن ان کو اس پر عمل کرنے میں ایسی  کوئی دشواری نہیں  آئی جس سے وہ خودکشی اور حرام  موت مرنے کی طرف مائل ہو، اگر ہماری جانب سے  ایسا کچھ ہورہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم فطرت سے ہٹ گئے ہیں، ہم نے اعتدال کا راستہ چھوڑ دیا ہے، اور ہم غلو میں مبتلا ہوگئے، اور یہ بھی شیطان کے واروں میں سے ایک وار ہے کہ    ایک دین دار مسلمان کو ایسے کاموں میں مبتلا کیا جائے جس سےوہ    جادۂ اعتدال سے ہٹ جائے اور مشقت میں پڑ جائے، اور اس طرح آہستہ آہستہ  نیک عمل کی نفرت، بلکہ دینِ اسلام کی نفرت اس کے دل میں پیدا ہوجائے ، اس لیے ہمیں شیطان کے اس وار سے بچنے کی ترتیب سوچنی ہوگی، اور وہ یہ ہے کہ شیطان کے اس قسم کے وسوسوں پر توجہ ہی نہ دی  جائے،  عمل کی طرف توجہ دی جائے اور کوئی وسوسہ آئے ، کچھ شک ہوجائے تو نفس سے کہے کہ اللہ تعالي  رحیم وکریم ہے ، قبول کرنے والا ہے۔  لہذا سائل  ان گہرائیوں میں جانے کے بجائے عام مسلمانوں کے رائے مطابق عمل کرے،جس چیز کو عام مسلمان پاک سمجھتے ہیں اس کو پاک سمجھے اور جس کو وہ ناپاک سمجھتے ہیں اس کو ناپاک سمجھے۔نیز "الیقین لایزول بالشک" والا قاعده صحت مند اور نارمل  انسان کے لیےہے، وہم میں مبتلا شخص کے لیے نہیں ،   آپ"الضرر يزال"، اور"المشقة تجلب التيسير" والے قاعدوں کو  مذ نظر رکھيں۔

نیز وہم کے موقع پر ان دعاؤں کا اہتمام کریں:

1..."أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ"

2... "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنْ  هَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَأَعُوْذُبِكَ رَبِّ مِنْ أَنْ یَّحْضُرُوْنَ".

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100709

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں