میرے شوہر کا انتقال ہوا، ورثاء میں، ایک بیوہ ، 4 بیٹے، مرحوم کے والد ہیں۔ اور والدہ کا انتقال پہلے ہوچکا تھا،وراثت میں یہ چیزیں ہیں :رہائشی گھر،کرائے پر دیے گئے مکان ، دکان، گاڑی اور بائیک یہ سب قانوناً میرے نام پر ہے ۔
1: رہائشی مکان:
اس کے خریدنے کی صورت یہ بنی میرے سسر کا جو پرانا گھر تھا وہ فروخت کر کے آدھی قیمت پرانے مکان کی آدھی قیمت میرے زیورات کی اور کچھ قرضے لیے تھے ،جو دکان سے ادا کیے گئے تھے، تمام معاملات اوراختیارات میرے پاس ہی ہیں ، مرحوم نے مکان خریدنے کے بعد باقاعدہ رجسٹریشن کے موقع پر چابی حوالے کی اور کہا" مبارک ہو یہ مکان آپ کا ہے۔"
2: کرائے پر دیے گئے مکان:
مکان کے کرائےکی و صولی ، کمی پیشی سارے معاملات میں ہی دیکھتی اور میں ہی فیصلہ کرتی ہوں ، یہ مکانات میرے لیے خریدے اس کے سو فیصد معاملات میرے ہاتھوں میں تھے اور یہ مکان خریدا ہی میرے لیے گیا تھا حتی کہ ایگریمنٹ وغیرہ سب میں نے بنایا اور سائن بھی خود کیے ہیں۔
دکان :
یہ دکان قانوناً میرے نام پر ہے لیکن اس کے معاملات اور اختیارات مرحوم کے ہاتھ میں تھے وہ سب دیکھتے تھے اور وہی فیصلہ کرتے تھے۔
گاڑی اور بائیک:
یہ قانوناً تھے تو میرے نام پر مگر اس کے معاملات اور اختیارات مرحوم شوہر کے ہاتھ میں تھے وہ سب دیکھتے تھے وہی فیصلہ کرتے تھے۔ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام نے سب چیزیں میری ہیں یا میرے مرحوم شوہر کی ؟رہنمائی فرمائیں۔
مرحوم کا ترکہ تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل مال سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم پر کسی بھی قسم کا قرضہ ہو تو اس کو کل مال سے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نےکوئی جائز وصیت کی ہو تو اس بقیہ مال کے ایک تہائی ترکہ سے نافذکرنے کے بعد باقی ترکہ کو 96 حصے کر کے12 حصےبیوہ کو، اور16 حصے مرحوم کے والد کو اور 17 حصے مرحوم کے ہر ہر بیٹے کو ملیں گے۔
میت ؛ 24/ 96
بیوہ | والد | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا |
3 | 4 | 17 | |||
12 | 16 | 17 | 17 | 17 | 17 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے12.5 فیصد بیوہ کو، 16.66فیصد مرحوم کے والد کو،اور17.70 فیصد ہر ہر بیٹے کو ملیں گے۔
مرحوم کے ترکہ کے حوالےسے جو تفصیل ذکر کی گئی ہے اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ ؛
1: رہائشی مکان؛ مرحوم نے رہائشی مکان خریدنے کے بعد اس میں منتقل ہونے سے پہلے سائلہ کوھبہ کیا ،اور باقاعدہ چابی حوالے کر کے یہ کہا : مبارک ہو یہ آپ کا مکان ہے ، تو ہبہ شرعاًمکمل ہوچکا تھا ، اب یہ مکان سائلہ کا حق ہے ،یہ مرحوم کی میراث میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
2: کرائے پر دئے گئے مکان ؛یہ مکان چونکہ سائلہ کے لئے خریدے تھے، سائلہ ہی کے پاس سارے اختیار تھے اور اس کے سارے معاملات خود دیکھتی اور اسے حل کرتی تھی تو یہ ھبہ کرنا بھی مکمل ہوگیا تھا، سائلہ ہی اس کی مالک ہے۔
3:دکان؛اگرچہ سائلہ کے نام تھی لیکن اس کا قبضہ اور تصرف مرحوم شوہر کے پاس تھا اور وہی اس کے تمام معاملات میں مختار تھے تو یہ دکان مندرجہ بالا حصوں کے مطابق ورثاء میں تقسیم ہوگی،محض نام ہونے کی بنیاد پر سائلہ کی ملکیت شمار نہیں ہوگی۔
4: گاڑی اور بائیک؛ یہ بھی تمام ورثاء میں مندرجہ بالا حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔
درر الحكام فی شرح مجلۃ الاحكام میں ہے:
"إنشاء الدار بأمر صاحب الدار لصاحبها. وعليه لو عمر أو بنى أحد دار زوجته أو ملكا آخر لها ككرمها أو بستانها لأجلها وكانت العمارة والبناء بأمر زوجته كانت العمارة والبناء ملكا للزوجة ويأخذ الزوج نفقاته بمقتضى هذه المادة من الزوجة."
(الکتاب الحادی عشر، الباب الثالث، الفصل الرابع، ج: 3، ص: 626، ط: دار الجيل)
ملتقی الابحر میں ہے:
"هي تمليك عين بلا عوض وتصح بإيجاب وقبول، وتتم بالقبض الكامل."
(کتاب الھبة، ص: 492، ط:دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) ، (وركنها) : هو (الايجاب والقبول)،(وحكمها: ثبوت الملك للموهوب له غير لازم) فله الرجوع والفسخ (وعدم صحة خيار الشرط فيها) فلو شرطه صحت إن اختارها قبل تفرقهما، وكذا لو أبرأه صح الابراء وبطل الشرط."
(کتاب الھبة، ص: 560، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601100654
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن