بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وحی کی قسموں کا بیان اور ان کے درمیان فرق


سوال

وحی کی اکثر اقسام پڑھنے میں آتی ہیں،جیسے کہ وحی متلو ،وحی غیر متلو،اور اس کے علاوہ وحی قلبی،وحی مَلَکی،کلامِ الٰہی ،تو ان میں کیا فرق ہے؟میں نے پیپرز دینے ہیں، تو میں اس میں کونسی اقسام لکھوں؟

جواب

 وحی کی  ابتداءً   دو قسمیں ہیں :

(1) وحی متلو ،  (2)  وحی غیر متلو ۔

وحی متلو: ایسی وحی ہے جس کے الفاظ و معانی دونوں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہوں ۔ 
وحی غیر متلو: ایسی وحی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر صرف معانی و مضامین کی شکل میں القا کی گئی ہو ۔اوران معانی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے سامنے کبھی اپنے الفاظ سے اور کبھی اپنے افعال سے اور کبھی دونوں سے بیان فرمایا ہو۔ (مستفاد از  امداد الاحکام 53/1)

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے کی جو صورتیں اور کیفیات  تھیں، ان کی  بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں ۔(معارف القرآن از مولانا محمد ادریس کاندہلوی ،علوم القرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب بحوالہ فیض الباری)

1۔وحی قلبی: اللہ تعالی کسی فرشتے وغیرہ کے واسطے کے بغیر براہِ راست  کوئی بات، نبی کے دل میں ڈال دے۔ پھر اس کی دو صورتیں ہیں:

          (1) بیداری میں۔ (2) خواب میں۔

2۔  کلامِ الہی: اللہ تعالی براہِ  راست نبی کو اپنی ہم کلامی کا شرف عطا فرماتا ہے، اس میں بھی فرشتے یا کسی کا واسطہ نہیں ہوتا،  نبی کو مخلوقات کی آواز سے جداگانہ آواز سنائی دیتی ہے،  جس کا ادراک عقل کے ذریعے ممکن نہیں۔ یہ وحی کی سب سے اعلیٰ قسم ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ شرف بیداری کی حالت میں صرف ایک مرتبہ حاصل ہوا یعنی معراج کے موقع پر اور ،خواب کی حالت میں بھی ایک مرتبہ حاصل ہوا(معارف القرآن  لمولانا مفتی شفیع صاحب بحوالہ اتقان46/1)

3۔  وحی ملکی: اللہ تعالی کسی فرشتے کے ذریعے اپنا پیغام بھیجتا ہے اور وہ فرشتہ پیغام پہنچاتا ہے۔ پھر اس کی تین صورتیں ہیں:

(1)  کبھی فرشتہ نظر نہیں آتا، صرف اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔

(2)  بعض مرتبہ کسی انسان کی شکل میں آتا ہے،عام طور پر  حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی شکل میں تشریف لایا کرتے تھے(معارف القرآن)

(3) کبھی کبھی اپنی اصلی صورت میں بھی نظر آجاتا ہے،ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صرف تین دفعہ ہوا،ایک مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی،دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری مرتبہ نبوت کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مکہ مکرمہ کے مقامِ اجیاد پر،پہلے دو واقعے دو صحیح سند سے ثابت ہیں ،البتہ تیسرا وقعہ سنداً کمزور ہونے کی بنا پر مشکوک ہے(ماخوز از معارف القرآن بحوالہ فتح الباری18،19/1)

مذکورہ بالا تینوں صورتوں کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت میں فرمایا ہے:

"وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ" [الشورى:٥١]

ترجمہ:کسی بشر کی (حالت موجودہ میں) یہ شان نہیں کہ اللہ تعالی  اس سے کلام فرمادے مگر(تین طریق سے)یا تو الہام سے یا حجاب کے باہر سے یا کسی فرشتے کو بھیج کر کہ وہ اللہ کے حکم سے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے پیغام پہنچادیتا ہے۔بڑی عالی شان ہےبڑی حکمت والا بھی ہے۔(از بیان القرآن)

اس آیت میں وحیاً (دل میں بات ڈالنے) سے مراد پہلی قسم ”وحی قلبی“ ہے اور پردے کے پیچھے سے مراد دوسری قسم یعنی ”کلام الٰہی“، اور پیغام رساں بھیجنے سے مراد تیسری قسم یعنی ”وحی مَلَکی“ ہے۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ وحی کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں ،اور باقی جو تین قسمیں ہیں ،ان میں  وحی کے نازل ہونے کی کیفیت کا بیان ہے۔نیز مذکورہ اقسام کی تعریف سے ہر ایک میں فرق بھی واضح ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102324

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں