بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وہم اور یقین کے درمیان فرق


سوال

وہم اور یقین میں فرق کیسے کریں  ؟ مجھے گھر والے کہتے ہیں کہ مجھے وہم کی بیماری ہے،لیکن میں سمجھتا ہوں یہ تقویٰ ہے، میں خود بھی اس پاکی اور ناپاکی کے معاملے میں زیادہ غور و فکر سے تنگ ہوں،  اب سوال یہ ہے کہ مجھے کیسے وہم اور یقین کا پتہ چلے گا؟ ہوسکتا ہے کبھی ناپاکی حقیقت میں ہو، اور میں اسے وہم کہہ کے جھٹلا دوں، اور ایسے میں گنہگار ہوجاؤں، مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ کہیں مجھے OCD کی بیماری نہ لگ جائے، اگر مجھے خیال آئے، یا کوئی غالبِ ظن ہو کسی چیز کے ناپاک ہونے کے بارے میں، تو میں اُس پر عمل کروں یا نہیں؟ جب کہ OCD کے مریضوں کو تلقین کی جاتی ہے، کہ وہ عمل نہ کرے،  کیا کسی چیز کے پاک یا ناپاک ہونے کے بارے میں غور کرنا چاہیےیا نہیں؟ یعنی کسی چیز کے  رنگ،بو، ذائقہ پر غور کرنا چاہیے جب ہمیں شک ہو کہ وہ چیز ناپاک ہوسکتی ہے؟ اب ہوسکتا ہے وہ چیز واقعتاً ناپاک ہو، لیکن ہماری بے غوری کی وجہ ہمیں معلوم نہ ہو ،اور اس سے ہم گنہگار ہوجائیں۔

جواب

 اگر آپ کونجاست یا  ناپاکی ظاہری طور پر نظر نہ آتی ہو،بلکہ صرف وہم اور وسوسہ ہو کہ آپ کا جسم ناپاک ہے یا کپڑوں پر نجاست لگی ہوئی ہے تو یہ تقویٰ نہیں بلکہ شیطانی وسوسہ  اوروهم ہے،یقین سے مراد یہ ہے کہ آپ کو آنکھوں سے نجاست لگی ہوئی دکھائی دے یا بو محسوس ہو یا ناپاکی کا غالب گمان ہو کہ آپ کو ناپاکی لاحق ہوچکی ہے۔

لہذا اس قسم کے وساوس سے بچيں  ،اور اس کا آسان علاج یہ ہے کہ اس قسم کے وساوس کی طرف توجہ نہ دی جائے،وساوس سے بالکل  پریشان نہ ہونا چاہیے، اور  ان کی طرف دھیان ہی نہ دینا چاہیے، نیز ایسے وساوس سے حفاظت کے لیے دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے،نیز ایسی حالت میں وساوس کے باوجود نماز  اور عبادات کی پابندی کريں اوران دعاؤں کا اہتمام کریں:

1 : "أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ."

2 : "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَأَعُوْذُبِكَ رَبِّ أَنْ یَّحْضُرُوْنَ."

3: "اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَكَ وَ ذِکْرَكَ، وَاجْعَلْ هِمَّتِيْ وَ هَوَايَ فِیْمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی."

  یعنی  اے اللہ! میرے دل کے وساوس کو اپنے خوف اور ذکر سے بدل دیجیے، اور میرے غم اور خواہشات کو ان اعمال میں بدل دیجیے  جن میں آپ کی محبت اور رضا ہو۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ولو شك إلخ) في التتارخانية: ‌من ‌شك ‌في ‌إنائه ‌أو ‌في ‌ثوبه أو بدن أصابته نجاسة أو لا فهو طاهر ما لم يستيقن، وكذا الآبار والحياض والجباب الموضوعة في الطرقات ويستقي منها الصغار والكبار والمسلمون والكفار؛ وكذا ما يتخذه أهل الشرك أو الجهلة من المسلمين كالسمن والخبز والأطعمة والثياب اهـ ملخصا."

 (كتاب الطهارة، فرض الغسل، ج: 1 ص: 151 ط: سعید)

الأشباہ والنظائر میں ہے:

"‌شك ‌في ‌وجود ‌النجس فالأصل بقاء الطهارة؛ ولذا قال محمد رحمه الله: حوض تملأ منه الصغار، والعبيد بالأيدي الدنسة، والجرار الوسخة يجوز الوضوء منه ما لم يعلم به نجاسة."

(القاعدة الثالثة: اليقين لا يزول بالشك، الأصل بقاء ما كان على ما كان، ص: 49 ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"(ومما يتصل بذلك مسائل الشك) في الأصل من شك في بعض وضوئه وهو أول ما شك غسل الموضع الذي شك فيه فإن وقع ذلك كثيرا لم يلتفت إليه هذا إذا كان الشك في خلال الوضوء فإن كان بعد الفراغ من الوضوء لم يلتفت إلى ذلك ومن شك في الحدث فهو على وضوئه ولو كان محدثا فشك في الطهارة فهو على حدثه ولا يعمل بالتحري. كذا في الخلاصة."

(كتاب الطهارة، الباب الثاني في الغسل، الفصل الأول في فرائض الغسل، ج:1 ص:13 ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں