بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وہابی دیوبندی کے پیچھے نماز جنازہ پڑھنے سے نکاح کا حکم


سوال

 کیا وہابی (دیوبندی)کے پیچھے نمازِ جنازہ پڑھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟ ہمارے محلے کے مولوی صاحب نے کہا ہے که  جس جس نے وہابی کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی ہے وہ نکاح دوبارہ کروائے۔

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کی اقتدا میں نماز کے جوازاورعدمِ جواز کا تعلق اس کے عقیدے اور نظریہ سے ہے؛ لہٰذا اگر کسی کا عقید ہ حدِکفر تک نہ پہنچا ہو تو اس کی اقتدا  میں نماز جائز ہے اورعقیدہ حدِکفر تک پہنچا ہوا ہو تو اس کی اقتدا میں نماز نہیں ہوگی۔

 صورتِ مسئولہ میں دیوبندی اہل سنت والجماعت سے ہیں اور ان کے عقائد قرآن وسنت کے مطابق ہیں،ان کے عقائد میں(معاذالله ) کوئی شرکیہ یا کفریہ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات یا  آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعلیمات کے خلاف کوئی بات  نہیں ہے،لہذا دیوبندی کی اقتداء میں نماز پڑھنا درست ہے اور ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی وجہ سے نکاح بدستور قائم ہے اور تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره)۔۔۔ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته لكونه عن تأويل وشبهة بدليل قبول شهادتهم، إلا الخطابية ومنا من كفرهم (وإن) أنكر بعض ما علم من الدين ضرورة (كفر بها) كقوله إن الله تعالى جسم كالأجسام وإنكاره صحبة الصديق (فلا يصح الاقتداء به أصلا) فليحفظ.

(قوله وهي اعتقاد إلخ) عزاه هذا التعريف في هامش الخزائن إلى الحافظ ابن حجر في شرح النخبة، ولا يخفى أن الاعتقاد يشمل ما كان معه عمل أو لا، فإن من تدين بعمل لا بد أن يعتقده كمسح الشيعة على الرجلين وإنكارهم المسح على الخفين وذلك، وحينئذ فيساوي تعريف الشمني لها بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما اهـ فافهم."

(كتاب الصلوة،باب الإمامة،ج:1،ص:561،ط:سعيد)

وفيہ ايضاً:

"(هو) لغة رفع القيد لكن جعلوه في المرأة طلاقا وفي غيرها إطلاقا، فلذا كان أنت مطلقة بالسكون كناية وشرعا (رفع قيد النكاح في الحال) بالبائن (أو المآل) بالرجعي (بلفظ مخصوص)."

(كتاب الطلاق،ج:3،ص:227،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407100042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں