بعض اوقات رفع حاجت کے وقت زور لگانے سے مادہ منویہ کی رنگت کا مادہ تھوڑی سی مقدار میں نکل جاتا ہے۔ کیا اس پر غسل فرض ہے؟ دوسری صورت یہ ہے کہ مشت زنی کے وقت مذی کا اخراج ہوتا ہے۔اور اس عمل کو مادہ منویہ کے اخراج سے پہلے ترک کر دیا جائے ،اور کچھ دیر بعد رفع حاجت کے وقت تھوڑی سی مقدار میں مادہ منویہ کی رنگت کا مادہ نکل جائے تو غسل فرض ہوگا ؟
واضح رہے کہ رفع حاجت کے وقت جو مادہ منی کی طرح نکلتا ہےوہ ودی ہوتی ہے جس کے نکلنے سے غسل تو واجب نہیں ہوتا ہےالبتہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
نیز مشت زنی کرنا ناجائز اور گناہ ہے، اس کی حرمت قرآنِ کریم سے ثابت ہےاور کئی احادیث میں اس فعلِ بد پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور اس فعل کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہے، اور ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے ) ۔
باقی مشت زنی کر تے کرتے رک جانے پر جو چند قطرے نکلتے ہیں اگر وہ منی کے قطرے ہیں تو پھر اس صورت میں غسل واجب ہو گا ، اور اگر منی کے قطرے نہیں بلکہ مذی کے ہیں تو اس صورت میں غسل واجب نہیں ،لیکن اگر مشت زنی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ جائےکہ منی شہوت اور لذت کے ساتھ اپنے مقر سے نکل تو گئی لیکن اس کو شرمگاہ سے باہر نکلنے سے روک دیاجائے یہاں تک شہوت ماند پڑ جائے اور اس کے بعد منی تھوڑی تھوڑی کرکے نکلے تواس صورت میں بھی غسل واجب ہوجائے گا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"المذي ينقض الوضوء وكذا الودي والمني إذا خرج من غير شهوة بأن حمل شيئا فسبقه المني أو سقط من مكان مرتفع يوجب الوضوء. كذا في المحيط.....والودي بول غليظ وقيل ماء يخرج بعد الاغتسال من الجماع وبعد البول. كذا في التبيين"
(کتاب الطھارۃ، الباب الاول فی الوضو، الفصل الخامس في نواقض الوضوء، ج:1، ص:10، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وفرض) الغسل (عند) خروج (مني) من العضو وإلا فلا يفرض اتفاقا؛ لأنه في حكم الباطن (منفصل عن مقره).....بشهوة)...... (وإن لم يخرج) من رأس الذكر (بها)وشرطه أبو يوسف،
(قوله: وشرطه أبو يوسف) أي شرط الدفق، وأثر الخلاف يظهر فيما لو احتلم أو نظر بشهوة فأمسك ذكره حتى سكنت شهوته ثم أرسله فأنزل وجب عندهما لا عنده، وكذا لو خرج منه بقية المني بعد الغسل قبل النوم أو البول أو المشي الكثير نهر أي لا بعده؛ لأن النوم والبول والمشي يقطع مادة الزائل عن مكانه بشهوة فيكون الثاني زائلا عن مكانه بلا شهوة فلا يجب الغسل اتفاقا زيلعي، وأطلق المشي كثير، وقيده في المجتبى بالكثير وهو أوجه؛ لأن الخطوة والخطوتين لا يكون منهما ذلك حلية وبحر. قال المقدسي: وفي خاطري أنه عين له أربعون خطوة فلينظر.
(قوله: وبقول أبي يوسف نأخذ) أي في الضيف وغيره. وفي الذخيرة أن الفقيه أبا الليث وخلف بن أيوب أخذا بقول أبي يوسف. وفي جامع الفتاوى أن الفتوى على قول إسماعيل.
(قوله: قلت إلخ) ظاهره الميل إلى اختيار ما في النوازل، ولكن أكثر الكتب على خلافه حتى البحر والنهر، ولا سيما قد ذكروا أن قوله قياس وقولهما استحسان وأنه الأحوط، فينبغي الإفتاء بقوله في مواضع الضرورة فقط تأمل."
(کتاب الطھارۃ، سنن الغسل، ج:1، ص:160، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102872
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن