بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا وعدہ کی رقم پر زکات واجب ہے؟


سوال

 ہمارے ہاں یہ رسم ہے کہ لڑکا اپنی شادی کےلیے مہر کے علاہ بھی لڑکی کے گھر والوں کو کچھ رقم ادا کرتا ہے ،جسے "ولور" کہاجاتا ہے ، جس کا ادا کرنا اس پر لازم ہوتا ہے، اب صورتِ مسئلہ یہ ہے ایک آدمی نے اپنے بیٹے کی منگنی کی اور ولور پانچ لاکھ روپے رکھا ہے، اب اس نے زکات ادا کرنا ہے تو کیا یہ پانچ لاکھ کی رقم اس کے نصاب سے منہا کی جائے گا یا نہیں؟ کیوں کہ یہ تو رسماً اس کے ذمے واجب الاداء ہے۔

جواب

واضح رہے کہ ’’ولور‘‘ کے نام سے جو رقم لی جاتی ہے وہ  بعض قوموں میں لڑکی کے رشتہ دار (باپ، بھائی وغیرہ) رشتہ دینے کے عوض لیتے ہیں اور بعض قوموں میں بطور ِمہر لی جاتی ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر لڑکی کے رشتہ دار (باپ یا بھائی وغیرہ) لڑکے والوں سے رشتہ دینے کے عوض بھاری رقم کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ شرعا ناجائز ہے؛ کیوں کہ یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے،  عام طور سے لڑکے والے جو یہ رقم دیتے ہیں وہ دل سے اس پر راضی نہیں ہوتے، صرف مجبوری میں شرمندگی سے بچنے کے لیے دیتے ہیں، اور اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ شادی کے بعد لڑکی کو ہمیشہ سسرال میں یہ طعنے دیے جاتے ہیں کہ ہم نے تمہیں اتنے لاکھ میں خریدا ہے اور لڑکی کے ساتھ بالکل غلاموں والا سلوک اور برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اس لیے ’’ولور‘‘ کے نام سے لڑکے والوں سے بھاری رقم لینے کی جو رسم ہے یہ ناجائز اور واجب الترک ہے۔

اگر کسی قوم میں مہر کی رقم ’’ولور‘‘ کے نام سے  لینے کا رواج ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ مہرِ مثل عورت کا حق ہے، یعنی اس لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، باکرہ یا ثیبہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا اس کا بھی اتنا مہر  ہے، لیکن شریعت نے فریقین کو اختیار دیا ہے کہ باہمی رضامندی سے مہرِ مثل سے کم یا زیادہ مہر مقرر کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو، اس کو  ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں اور نکاح کے وقت فریقین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی  کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوگی، البتہ استطاعت سے بہت زیادہ یا دکھلاوے کے لیے بہت زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ رقم جو کہ رسم کے طور پر ہےاس کا ادا کرنا لڑکے اور لڑکے کے والدین کسی کے ذمہ ادا کرنا شرعاً لازم  اور واجب الادانہیں ہے، لہذا پانچ لاکھ کی بھی زکات نکالی جائے  گی ۔

فتح القدیر میں ہے:

"الزكاة ‌واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول."

(کتاب الزکاۃ،153/2،ط دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"‌ومنها ‌الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج."

(الباب الاول فی تفسیر الزکاۃ وصفتہا وشرائطہا،172/1ط، رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم فللزوج أن يسترده) لأنه رشوة."

 (کتاب النکاح ،باب المہر ،مطلب انفق علی معتدۃ الغیر،3/ 156،سعید)

وفيه أیضا:

"(و) الحرة (مهر مثلها) الشرعي (مهر مثلها) اللغوي: أي مهر امرأة تماثلها (من قوم أبيها) لا أمها إن لم تكن من قومه كبنت عمه. وفي الخلاصة: يعتبر بأخواتها وعماتها، فإن لم يكن فبنت الشقيقة وبنت العم انتهى ومفاده اعتبار الترتيب فليحفظ."

(کتاب النکاح ،باب المہر،مطلب فی بیان مہر المثل،137/3،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100548

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں