بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وعدہ کی ایک خاص صورت کا حکم


سوال

 میں کسی سے وعدہ کرتا ہوں کہ یہ کام نہیں کروں گا،مثال کے طور پر فلاں چیز نقصان دہ ہے، اس لئے میں نہیں کھاؤں گا،بعد میں خیال آتا ہے کہ کہیں مجھ سے وعدہ خلافی نہ ہو جائے،اسی لیے  میں اس شخص سے (جس سے وعدہ کیا تھا )کہتاہوں کہ میں نے آپ سے یہ وعدہ کیا تھا،  مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھ سے وعدہ خلافی نہ ہو جائے، اس لیے میں یہ وعدہ ختم کرتا ہوں، وہ شخص راضی ہوجاتاہے ، میرا اب آپ سے کوئی وعدہ نہیں، تو کیا اگر ہم وہ چیز کھا لیتے ہیں، تو کیا وعدہ خلافی تو نہیں ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایسا کرنا وعدہ خلافی نہیں ،ایسا کیا جا سکتاہے ۔

الموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے :

"وأما من وعد بفعل شيء مباح أو مندوب إليه، فينبغي عليه أن ينجز وعده، حيث إن الوفاء بالوعد من مكارم الأخلاق وخصال الإيمان، وقد أثنى المولى جل وعلا على من صدق وعده فامتدح إسماعيل عليه السلام بقوله: {إنه كان صادق الوعد} (3) ، وكفى به مدحا۔۔۔۔۔۔۔قال النووي: الوفاء بالوعد مستحب استحبابا متأكدا۔۔۔۔‌‌القول الخامس: أن إنجاز الوعد المجرد غير واجب، أما الوعد المعلق على شرط، فإنه يكون لازما، وهو مذهب الحنفية، حيث نقل ابن نجيم عن القنية: لا يلزم الوعد إلا إذا كان معلقا (3) وفي الفتاوى البزازية: أن المواعيد باكتساء صور التعليق تكون لازمة (4) . ونصت المادة (84) من مجلة الأحكام العدلية: المواعيد بصور التعاليق تكون لازمة."

(وعد ،ج:44،ص:74/ 75 ،ط:دارالسلاسل)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما ‌ركن ‌اليمين بالله تعالى فهو ‌اللفظ الذي يستعمل في ‌اليمين بالله تعالى وأنه مركب من المقسم عليه والمقسم به."

 (كتاب الايمان ،3/ 5، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے :

وركنها اللفظ المستعمل فيها........إلخ."

(کتاب  الایمان والنذور،3/ 704، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں