بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وعدہ خلافی کا حکم اور اس کا کفارہ


سوال

اگر قرآن پر ہاتھ رکھ کر اللہ سے وعدہ کرکے توڑا ہو تو کیا اس کا کوئی کفارہ ہوگا؟

جواب

قرآنِ مجید اور احادیثِ  مبارکہ میں وعدہ پورا کرنے کی بہت تاکید آئی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت کم ایسا خطبہ دیا ہوگا جس میں یہ ارشاد نہ فرمایا ہو:

"اس شخص کا کوئی   ایمان نہیں جس میں امانت نہیں، اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں وعدہ کی پاس داری نہیں۔

وعدہ کی پاس داری ایمان کے کمال کی نشانی ہے، اور وعدہ خلافی  کی عادت منافقوں کا شیوہ ہے؛ اس لیے جب وعدہ کیا جائے ،  خواہ انسان سے ہو خواہ اللہ جل شانہ سے تو حتی الامکان اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے، بلاعذر وعدہ توڑ دینے کو منافق کی نشانی  میں شمار کیا گیا ہے؛  لہذا اگر کبھی وعدہ خلافی ہوجائے تو اس کا کفارہ تو نہیں، البتہ توبہ   استغفار کا اہتمام کیا جائے۔

باقی مذکورہ صورت میں چوں کہ اس نے قسم كے الفاظ استعمال نہيں  کیے؛ اس لیے  اس كا كوئی مالی كفارہ لازم نہيں ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن قتادة عن أنس بن مالك قال: قلما خطبنا نبينا صلى الله عليه وسلم، أو قال: النبي صلى الله عليه وسلم، إلا قال في خطبته: " لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له."

( السنن الكبرى للبيهقي ، باب ما جاء في الترغيب في أداء الأمانات، ج: 6، صفحہ: 471، رقم الحدیث: 12690، ط:  دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا سليمان أبو الربيع، قال: حدثنا إسماعيل بن جعفر، قال: حدثنا نافع بن مالك بن أبي عامر أبو سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان."

(صحیح البخاری، باب علامة المنافق، ج: 1، صفحہ: 16، رقم الحدیث: 33، ط: دار طوق النجاة) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں