بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وعدہ خلافی گناہ ہے


سوال

زید سے عمرو نے ایک مکان خریدا جس کی قیمت 22لاکھ طے پائی اور یہ معاہدہ ہوا کہ 22لاکھ میں سے 17 لاکھ نقد ادائیگی پر زید، عمر و کے نام مکان کا انتقال کردے  گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ساتھ  میں یہ بھی  معاہدے کا حصہ تھا  کہ پانچ ماہ تک عمرو بقیہ تمام رقم یعنی پانچ لاکھ زید کو دے گا اور زید مکان عمرو کے حوالے کردے گا لیکن پانچ ماہ میں عمرو نے کچھ بھی ادائیگی نہیں کی ،اب زید نے بقیہ رقم کا مطالبہ کیا ہے تو عمرو نے مزید دو ماہ کی مہلت مانگ لی لیکن دو ماہ گزرنے کے بعد بھی کوئی ادائیگی نہیں کی۔ پھر زید نے عمرو سے رقم کا سوال کیاتو اس نے صاف انکار کردیا اور ٹال مٹول کرتے چھ ماہ مزید گزر گئے ،زید نے ایک جگہ پلاٹ خریدنا چاہا جس کی نقد قیمت تین لاکھ پچاس ہزار اور قسط  پر چار لاکھ تھی تو زید نے عمرو  کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیاتو عمرو نے اس بات پر وعدہ کیا کہ آپ پلاٹ قسط پر لے لیں ،میں پابندی سے ہر مہینے قسط ادا کروں گا۔زید نے پچاس ہزار  کے نقصان کے باوجود پلاٹ قسط پر لے لیا اور پندرہ ہزار ماہانہ پلاٹ والے سے ایگریمنٹ کر لیا اور عمرو نے دس ہزار ماہانہ  اد اکرنے  کا وعدہ کیا لیکن دو ماہ تک پابندی سے رقم ادا کرتارہا اور تیسرے مہینے قسط ادا  کرنے سے انکار کردیا ،اب چھ ماہ گزر گئے قسط ادا نہ کرنے کی وجہ سے  پلاٹ میں ایک لاکھ ایڈوانس اور دو قسطیں تیس ہزار کی سب ضائع ہو گئیں۔

اب اس سب کے بعد عمرو نے چونکہ  معاہدہ توڑ دیا اور قسط ادا کرنے سے انکار کردیا تو زید نے عدالت  کی طرف رجوع کیا اور عدالت میں کیس دائر کیا اب عمرو نے رقم ادا کرنے کا کہا لیکن زید نے  یہ کہہ کر رقم لینے سے انکار کردیا  کہ اب شریعت اور عدالت میرے حق  میں جو فیصلہ کرے گی میں اس کا پابند ہوں گا۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں جب عمرو نے بقیہ پانچ لاکھ روپے پانچ ماہ میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا تو شرعاً اس پر لازم تھا کہ وہ اپنے وعدہ کی پاسداری کرتے ہوئے  بقیہ پانچ لاکھ  روپے مذکورہ مدت میں ادا کردیتا لیکن  چونکہ اس نے ادائیگی کے بجائے ٹال مٹول سے کام لیا اور وعدہ خلافی کی ہے جس کی وجہ سے وہ  سخت گناہ گارہوا ہے اور ایسی صورت میں  زید کو اپنے حق کے وصولی کیلیے قانونی چارہ جوئی  کا  حق حاصل تھا جو اس نے کیا ،اس کے بعد اب جب عمرو مذکورہ رقم  دینے کیلیے تیار ہے اور دے رہا ہےتو زید کو  چاہیے کہ وہ اپنا حق وصول کرلے اور پھر  عدالت سے   کیس خارج  کروا دے۔ اورعمرو کو چاہیے کہ اپنے کیے پر خوب توبہ و استغفار کرے۔

باقی زیرِ نظر مسئلے میں زید نے جس آدمی سے مذکورہ پلاٹ خریدا اور ایک لاکھ روپے ایڈوانس اور دو ماہ کی قسطیں ادا کیں تو اس آدمی کے لیے بقیہ قسطوں کی ادائیگی نہ ہو نے کی وجہ سے ایڈوانس رقم  اور دو ماہ کی قسطوں کی رقم کو ضبط کر لینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے ۔

«قرآن کریم»   میں باری تعالي کا ارشاد ہے:

"وَأَوۡفُواْ بِٱلۡعَهۡدِۖ إِنَّ ٱلۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡـُٔولٗا۔"

[سورۃ الإسراء: 43] 

«صحيح مسلم»  میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌مطل ‌الغني ظلم، وإذا أتبع أحدكم على مليء فليتبع۔"

(باب تحريم مطل الغني، وصحة الحوالة، واستحباب قبولها إذا أحيل على ملي:3/1197،ط:دار احیاء التراث العربی)

«صحيح البخاري» میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا ‌وعد ‌أخلف، وإذا اؤتمن خان۔"

(باب علامة المنافق:1/16،ط:دار طوق النجاۃ)

السنن الكبرى ميں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(كتاب الغضب،باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارا،6/166،رقم: 11545 ،ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں