بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وعدہ خلافی گناہ ہے / مشتری بیع کے بعد مبیع کا مالک ہوجاتا ہے


سوال

1۔ ایک زمین کئی لوگوں میں مشترک تھی، میں نے ان میں سے ایک شریک سے اس کے حصے کی زمین خریدی اور اس کے بقدر کاشت کار سے میں نے اپنے قبضہ میں لے لی، لیکن مالک وہاں موجود نہیں ہوتا، شہر میں ہوتا ہے تو جو بندہ ان کی زمین کاشت کرتا تھا، اس نے خفیہ طور پر وہ زمین اپنے نام کروالی اور اب مجھ سے قبضہ لینا چاہتا ہے، جب کہ وہ زمین میں نے مالک سے خریدی ہے اور اس کو پیسے بھی دیئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کاشت کار کا خفیہ طور پر زمین اپنے نام کروانا اور مجھ سے زمین کی واپسی کا مطالبہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟

2۔ ہم دو ساتھی ایک زمین پر کاشت کاری کرتے تھے، مالکان دوسرے لوگ ہیں، میرے ساتھی نے مالکان سے کچھ زمین خرید لی، پھر میرا اس کے ساتھ جرگہ ہوا اور اس میں یہ  معاہدہ ہوا کہ جب تک یہ زمین مالکان میں پوری طرح تقسیم نہیں ہوجاتی ، اس وقت تک   کوئی بھی مزید زمین مالکان سے نہیں خریدے گا، لیکن اب میرا ساتھی اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہےاور مزید زمین مالکان سے خریدتا ہے،جب کہ اس زمین پر قبضہ میرا ہےکیونکہ میں اس پر کاشت کاری کرتا ہوں۔

سوال یہ ہے کہ اس کے لیے معاہدہ کی خلاف ورزی کرنا کیسا ہے؟  

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا بیان واقعۃً صحیح اور درست ہے کہ اس نے زمین مالک سے خریدی ہےاورمالک کو پیسے بھی دے دیئے ،پھر  اس کے بعد کاشت کار سے مذکورہ زمین پر قبضہ بھی لے لیا ہے تو ایسی صورت میں سائل اس زمین کا مالک بن گیا تھا،    کاشت کار  کا  خفیہ طور پر اس زمین کا انتقال اپنے نام کروانا شرعاً جائز نہیں تھااور اس کی وجہ سے وہ زمین کا مالک بھی  نہیں بنا ، لہذا وہ   سائل سے مذکورہ زمین کے واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا ہے۔

2۔ جب دونوں نے باہمی رضامندی سے مذکورہ معاہدہ کیا ہے تو اب ہر ایک پر معاہدہ کی پاسداری شرعا ًلازم ہے، تاہم اگر سائل کا ساتھی معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے مالک سے زمین خرید لیتا ہے تو وہ مالک بن جائے گا۔

قرآن کریم   میں باری تعالٰي کا ارشاد ہے:

"وَأَوفُواْ بِٱلعَهدِ إِنَّ ٱلعَهدَ كَانَ مَسـٔولًا۔"

[سورۃ الإسراء: 43] 

صحيح البخاری  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا ‌وعد ‌أخلف، وإذا اؤتمن خان۔"

(باب علامة المنافق:1 /16،ط:دار طوق النجاۃ)

السنن الكبرى ميں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(كتاب الغضب،باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارا:6 /166،رقم: 11545 ،ط: دار الكتب العلمية)

حاشية ابن عابدين  میں ہے:

"اعلم ‌أن ‌أسباب ‌الملك ‌ثلاثة: ‌ناقل ‌كبيع ‌وهبة ‌وخلافة ‌كإرث ‌وأصالة، وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة۔"

(کتاب الصید: 6 / 463، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں