بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا وائرس کو وبا قرار دینے اور شہر سے گاؤں جانے کا حکم


سوال

کیا کرونا وائرس کو وبا قرار دیا جاسکتا ہے? کیا حفاظت کی خاطر شہر سے گاؤں کی طرف جانا صحیح ہے؟

جواب

کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور لوگوں کے اس میں ابتلا اور اموات کی وجہ سے اس بیماری کو وبا کہا جاسکتا ہے۔ 

  • المحكم والمحيط الأعظم - (10 / 566):
    " الوَباءُ الطاعون، وقيل: هو كلُّ مرضٍ عامٍّ ".
  • المصباح المنير في غريب الشرح الكبير - (10 / 240):
    "( و ب ء ) : الوباء بالهمز مرض عام يمد ويقصر ويجمع الممدود على أوبئة مثل متاع وأمتعة والمقصور على أوباء مثل سبب وأسباب وقد وبئت الأرض توبأ من باب تعب وبئا مثل فلس كثر مرضها فهي وبئة ووبيئة على فعلة وفعيلة ووبئت بالبناء للمفعول فهي موبوءة أي ذات وباء ".
  • المغرب في ترتيب المعرب ـ مشكول - (5 / 303):
    "( الْوَاوُ مَعَ الْبَاءِ ) ( و ب أ ) : ( الْوَبَاءُ ) بِالْمَدِّ الْمَرَضُ الْعَامُّ ( وَأَرْضٌ وَبِيئَةٌ وَوَبِيَّةٌ وَمَوْبُوءَةٌ ) كَثُرَ مَرَضُهَا ( وَقَدْ وَبِئَتْ وَوُبِئَتْ وَبَاءً )".
  • تاج العروس من جواهر القاموس - (1 / 478):
    " وبأ : ( *!الوَبَأُ مُحرَّكةً ) بالقصر والمَدّ والهمزة ، يُهمز ولا يُهمز ( : الطَّاعُونَ ) قال ابنُ النَّفِيس : الوَبَاءُ : فَسادٌ يَعْرِض لِجَوْهَر الهَوَاءِ لأَسبابٍ سَمَاوِيّة أَو أَرْضِيَّة، كالمَاءِ الآسن والجِيَفِ الكثيرَة، كما في المَلاحِم، ونقل شيخُنا عن الحَكيم داؤود الأَنطاكي رحمه الله تعالى أنَّ الوَبَاءَ حَقيقة تَغَيُّر الهواءِ بالعَوَارِض العُلْوِيَة، كاجتماع كواكبَ ذاتِ أَشِعَّة والسُّفْلِيّة كالملاحِم وانفتاحِ القُبور وصُعودِ الأَبْخِرة الفاسدة، وأَسبابُه مع ما ذُكِرَ تَغَيُّرُ فصولِ الزمانِ والعناصرِ وانقلابُ الكائنات، وذكروا له علاماتٍ، منها الحُمَّى والجُدَرِيّ والنَّزَلاَت والحِكَّة والأَورام وغيرُ ذلك، ثم قال: وعبارة النُّزهة تقتضي أَن الطاعون نوعٌ من أَنواع الوَبَاءِ وفَرْدٌ من أَفراده، وعليه الأَطباءُ، والذي عليه المُحَقِّقون من الفقهاء والمُحَدِّثين أَنهما مُتبايِنَانِ، *!فالْوَبَاءُ: وَخَمٌ يُغَيِّرُ الهواءَ فتَكثُر بسببه الأَمراضُ فِي الناسِ، والطاعونُ هو الضَّرْبُ الذي يُصِيب الإِنحسَ من الجِنِّ، وأَيَّدوه بما في الحَديث أَنه وَخْزُ أَعْدائكم من الجِنّ (أَو كلُّ مَرَضٍ عَامَ)، حكاه القَزَّاز في جامعه، وفي الحديث: (إِنَّ هَذَا الوَبَأَ رِجْزٌ) ( ج ) أَي المقصور المهموز (*! أَوبَاءٌ ) كَسَبَبٍ وأَسباب ( ويُمَدُّ ) مع الهمز وحينئذ ( ج *! أَوْبِيَةٌ ) كهَوَاءٍ وأَهْوِيَة ، ونقل شيخنا عن بعضهم اين المقصورَ بلا هَمْزٍ يُجمَع على أَوْبِيَة ، والمهموز على أَوْباءٍ ، قال : هذه التفرقةُ غيرُ مَسموعةٍ سماعاً ولا جارِيةٌ على القياسِ . قلت : هو كما قال . وفي ( شرح المُوَطَّإِ ) : الوبَاءُ ، بالمَدِّ : سُرْعَة المَوْتِ وكَثْرَته في الناس".

وبا کے زمانہ میں شہر سے گاؤں کی جانب جانا درست ہے، البتہ اس میں یہ عقیدہ نہ رکھا جائے کہ شہر میں مرض ہے تو وہ مرض بذاتِ خود متعدی ہو کر پھیل کر اس شخص کو لگے گا یا لازمی طور پر لگے گا، اور اس نظریہ کی وجہ سے (جان بچانے کی خاطر) شہر سے بھاگنابھی درست نہیں۔ 

مختلف کتبِ حدیث میں ایسی روایات منقول  ہیں جن میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ جس جگہ طاعون (وبائی مرض) موجود ہو وہاں مت جاؤ ، اور جہاں تم موجود ہو وہاں طاعون کا مرض پھیل جائے تو ڈر کر وہاں سے بھاگو مت، اور یہ روایات صحیح ہیں، ملاحظہ فرمائیں، بخاری شریف میں ہے:

"حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَعَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَسْأَلُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّاعُونِ؟ فَقَالَ أُسَامَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الطَّاعُونُ رِجْسٌ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَاتَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَاتَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ. قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لَايُخْرِجْكُمْ إِلَّا فِرَارًا مِنْهُ". (صحیح البخاري، باب من انتظر حتی تدفن:۴/۱۷۵، ط: دارطوق النجاة)

اسی طرح کی روایت صحیح مسلم ، سنن ابو داؤد ، سنن ترمذی وغیرہ میں موجود ہے ۔اور روایت بھی صحیح درجہ کی ہے.

اس کی وضاحت کرتے ہوئے علماء فرماتے ہیں  کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جہاں طاعون پھیلا ہو ، وہاں مت جاؤ ؛ کیوں کہ وہاں جانے کی صورت میں وبائی مرض کے بارے میں اللہ کے سامنے جرأت کا اظہار کرنا ہے اور جہاں موجود ہو وہاں سے ڈر اور خوف کی وجہ سے نکلنا چاہے، تو یہ تقدیر سے بھاگنا ہے جس کاکوئی فائدہ نہیں ہے ، اس لیے یہ دونوں کام درست نہیں۔ البتہ یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب کوئی اس وبا سے بھاگنا چاہتا ہو؛ لہٰذا اگر کسی کام سے جارہا ہو تو  اس وبائی جگہ سے نکلنے میں حرج نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

"وفي رواية أخرى: فلاتدخلوا عليه أي يحرم عليكم ذلك؛ لأن الإقدام عليه جراءة على خطر وإيقاع للنفس في التهلكة والشرع ناه عن ذلك، قال تعالى: {ولاتلقوا بأيديكم إلى التهلكة} ( وإذا وقع ) أي الطاعون ( وأنتم ) أي والحال أنتم ( بها ) بذلك الأرض ( فرارًا ) أي بقصد الفرار ( منه )؛ فإن ذلك حرام؛ لأنه فرار من القدر وهو لاينفع، والثبات تسليم لما لم يسبق منه اختيار فيه، فإن لم يقصد فرارًا بل خرج لنحو حاجة لم يحرم، قاله المناوي في التيسير". (عون المعبود ، باب الخروج من الطاعون : ۸/۲۵۵)

اور علماء نے طاعون سے وبا مراد لی ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
"الطاعون بوزن فاعول من الطعن عدلوا به عن أصله ووضعوه دالاً على الموت العام كالوباء، ويقال: طعن فهو مطعون وطعين إذا أصابه الطاعون وإذا أصابه الطعن بالرمح فهو مطعون، هذا كلام الجوهري. وقال الخليل: الطاعون الوباء". (عون المعبود ، باب الخروج من الطاعون : ۸/۲۵۵)۔

اس لیے اگر کہیں وبا پھیل جائے تو  اس سے بھاگنے کے بجائے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں