بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورونا وائرس میں انتقال ہونے والے کو غسل دینا / وبا میں مبتلا ہوکر انتقال کیے جانے والے کا حکم


سوال

اگر کسی جگہ کورونا  وائرس میں شہید ہونے والوں کے لیے کوئی کرونا وائرس میں مبتلا ہونے والا شخص یا چند آدمی جو وائرس زدہ ہوں اس بات کے لیے تیار ہوجائیں کہ وائرس میں شہید ہونے والوں کو ہم غسل دیں گے، ہم نمازِ جنازہ پڑھائیں گے جب تک اللہ ہم کو زندہ رکھیں گے۔ تو کیا اس صورتِ  حال میں ان کے لیے جائز ہوگا اور کیا ان کو اجر ملے گا؟اور اگر پھر وہ شہید ہوگئے تو کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شہادت کا درجہ پائیں گے؟

جواب

1.کسی مسلمان کے انتقال پر اس کے جو حقوق دوسروں پر عائد ہوتے ہیں ان حقوق میں تجہیز و تکفین ، نماز جنازہ اور تدفین شامل ہے۔میت کو غسل دینا اس کے حق کی ادائیگی اور فرض کفایہ ہے۔یہ حق اولاً میت کے قریبی رشتہ داروں کو حاصل ہے۔تاہم اگر دوسرے لوگ از خود اس حق کی ادائیگی میں پہل کریں تو عنداللہ ماجور ہوں گے۔جیساکہ المستدرک علی الصحیحین کی ایک طویل روایت میں ہے :

"عن أبي رافع قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من غسل ميتًا فكتم عليه غفر له أربعين مرةً ..."( هذا حديث صحيح على شرط مسلم و لم يخرجاه)."

(1/505دارالکتب العلمیۃ بیروت)

ترجمہ :حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلم میت کو غسل دیا اور اس کے عیب کو چھپا دیا، اللہ تعالیٰ اس کی چالیس مرتبہ مغفرت فرماتے ہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جو لوگ موجودہ وبا میں انتقال کیے جانے والے شخص کے غسل وغیرہ کا فریضہ انجام دیں ،تو ان شاء اللہ اس حق کی ادائیگی کی وجہ سے وہ عنداللہ اجر وثواب کے مستحق قرار پائیں گے۔تاہم اس موقع پر ظاہری  اور احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا شریعت کے منافی نہیں۔

2.غسل دینے والوں میں سے کسی کا انتقال ہوجانا بذاتِ  خود بیماری کے متعدی ہونے کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اللہ کے حکم اور اس کے امرکی وجہ سے ہے۔اس لیے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہےکہ بیماری بذاتِ  خود متعدی نہیں ہوتی، بلکہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوتاہے۔ایک  مرتبہ نبی  کریم ﷺ کے  پاس ایک مجذوم (جذام کی بیماری والا شخص، جس بیماری کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ پھیلتی ہے)آیا تو آپﷺ نے اس کے  ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا،  جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار آدمی سے یقینی طور پر بیماری لگ جانے کا اعتقاد درست نہیں ہے۔

لہذاغسل دینے والے افراد میں سے اگر کوئی شخص اس وبا میں مبتلا ہوجاتاہے اور انتقال کرجاتاہے تو گویااس کی موت کاوقت مقرر تھا اور اللہ کے حکم سے ہی اس کی موت کا ظاہری سبب یہ وبا بنی ، ایسا شخص ان شاء اللہ اخروی اعتبار سے یعنی اجر وثوااب کے لحاظ سے شہید کا درجہ پائے گا۔جیساکہ احادیثِ  مبارکہ سے معلوم ہوتاہے ۔

الفتاوى الهندية (1/ 159):

"و يستحب للغاسل أن يكون أقرب الناس إلى الميت، فإن لم يعلم الغسل فأهل الأمانة والورع، كذا في الزاهدي.يستحب أن يكون الغاسل ثقةً يستوفي الغسل ويكتم ما يرى من قبيح ويظهر ما يرى من جميل، فإن رأى ما يعجبه من تهلل وجهه وطيب رائحته وأشباه ذلك يستحب له أن يحدث به الناس، وإن رأى ما يكره من سواد وجهه ونتن رائحته وانقلاب صورته وتغير أعضائه وغير ذلك لم يجز له أن يحدث به أحداً، كذا في الجوهرة النيرة."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں