میں ماں باپ کا سب سے بڑا بیٹا ہوں،مجھ سے چھوٹے بھائی پانچ ہیں،میں نے ماں باپ اور چھوٹے بھائیوں کا بہت خیال رکھا،ہمارے گھر میں ہم اور ہمارے چچازاد بھائی ایک ساتھ رہتے تھے،چھوٹے بھائیوں نے کچھ پیسہ کمایاتو ماں باپ ان کا خیال رکھنےلگے،مجھے برابھلا کہنےلگے،پھر میں کچھ عرصہ بیمار رہاتواس وقت بھی میرا بالکل خیال نہ رکھا،ماں باپ اور چھوٹے بھائی سب دشمن ہوگئے،آپس میں مشورہ کرتے تھے اور مجھ سے مشورہ نہیں کرتے تھے،اور مجھ کو سب سے کمتر سمجھتے تھے اور مجھے بڑا ہونے کا درجہ نہیں دیتے تھے،ان باتوں کو دس سال ہوگئے،اور اب میں دس سال بعد گاؤں گیاتو میں نے ماں باپ کو سلام کیا، لیکن انہوں نے سلام کا جواب بھی نہیں دیا،اور مجھے کہا کہ اپنے بچوں کو ہمارے پاس سے لےجاؤ،اور کہیں اور رہو،میرا اٹھنا بیٹھنا علماء کرام کے ساتھ تھا تو مجھے والد نے کہا کہ ان کے ساتھ مت بیٹھو ،یہ تم سے پیسے کھاتے ہیں،اور مجھ سے اس پر بھی ناراض ہوگئے،اب سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال کے بعد کیا میری پکڑ تو قیامت کے دن نہیں ہوگی؟اس بات پر کہ تم ماں باپ کے مجرم ہو،حالانکہ میں نے پوری کوشش کی کہ میں ماں باپ کے ساتھ رہوں لیکن انہوں نے مجھے بچوں سمیت گھر سے باہر نکال دیا،اور مجھے ماں باپ کہتے ہیں کہ اگر تم ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو تمہیں چھوٹے بھائیوں کے ہاتھ کے نیچے رہنا ہوگا،اور ان کے کہنے کے مطابق چلوگے۔
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں دونوں (یعنی والدین کے حقوق بچوں پر اور اولاد کے حقوق والدین پر)کے حقوق بڑے واضح ہیں،اس لئے جانبین کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان حقوق کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہوں تاکہ گھر اور معاشرے کا ماحول سازگار رہے۔
صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل والدین کے حقوق کی رعایت رکھنے کا اہتمام کرتا ہے،اور سائل کی ہر ممکنہ کوشش رہتی ہے کہ وہ والدین کو راضی رکھے ،مگر اس کے باوجود والدین اس سے ناراض رہتے ہیں تو ان شاءاللہ اس سے اللہ تعالی کے ہاں سائل کی پکڑ نہ ہوگی، سائل ان حالات کے باوجود والدین کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھے،اور ان کی رضامندی و خوشدلی کی ہر ممکنہ کوشش کرتارہے،اور خاندان کے معزز افراد کے ذریعے حکمت اور تدبر سے اس معاملے کو سلجھایا جا سکتا ہے،نیز سائل اللہ تبارک و تعالی سے دعا بھی کرتا رہے کہ اللہ تبارک و تعالی جلد سے جلد سائل کی اس پریشانی کو دور فرمائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا رشاد ہے:
"{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا}."(سورۃ الإسراء: 23،24)
ترجمہ :"اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو، اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرماجیساکہ انہوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔"(بیان القرآن ،ج: 2،ص: 374، ط:رحمانیہ)
حدیث پاک میں ہے:
"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".
(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث: 3 / 1382، ط: المکتب الاسلامی)
ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں"۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100540
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن