بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینے کا حکم


سوال

زید کی شادی کو تقریبًا دو سال ہوچکے ہیں، اب صورتِ حال یہ ہے کہ زید کی بیوی اور والدہ کی آپس میں بالکل بھی نہیں بنتی، گھر میں ہر وقت لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں، اس وجہ سے زید نے بیوی کو خرچہ، کھانا پکانے وغیرہ کے اعتبار سے علیحدہ بھی کردیا تھا، مگر اس کے باوجود بھی معاملہ پہلے جیسا ہے ، اور معاملات حل کرنے کی کوششوں سے بھی وہ حل نہیں ہوپا رہا ، اور اب زید کی والدہ کہتی ہے کہ اس کو طلاق دےدو۔

مذکورہ صورت میں کیا زید اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے یا نہیں؟ اور طلاق دینے کی صورت میں کیا زید گناہ گار ہوگا یا نہیں؟

شریعت کی روشنی میں اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ  مطہرہ نے جہاں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور اُن کے ہر  جائز حکم کو پورا کرنے کی تاکید کی  ہے تو وہیں  یہ حکم بھی دیاہے کہ  اگر وہ کسی ایسی بات کا مطالبہ کریں  جس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہو، یا  اُسے پورا کرنے کے نتیجے میں کسی فرض یا واجب کا ترک لازم آتا ہو یا کسی ناجائز کام کا ارتکاب کرنا پڑے تو ایسے امور میں والدین کا حکم پورا کرنا نہ صرف یہ کہ غیر ضروری ہے،  بلکہ  اس کا ترک کرنا واجب ہے ، ایسی صورت میں ادب و احترام کے ساتھ والدین کو سمجھانا چاہیے کہ یہ حکم خلافِ شریعت ہے، اس لیے اس پر عمل کرنا شرعًا  جائز نہیں ہے۔

چناں چہ صورتِ مسئولہ میں زید کی والدہ اگر  کسی  شرعی  وجہ  کے بغیر محض آپس کی نااتفاقی کی بنا پر زید سے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کررہی ہے تو ایسی صورت میں ان کا بلاوجہ بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرنا شرعًا درست نہیں ہے، اور بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں بیوی کو طلاق دینا بھی درست نہیں ہے، اور نہ ہی زید پر والدہ کی یہ بات ماننا لازم ہے، بلا وجہ طلاق دینے پر زید خود بھی گناہ گار ہوگا اور اس کی والدہ بھی، لہٰذا ایسی صورت میں زید کو چاہیے کہ اپنی والدہ کو ادب و احترام سے سمجھائے، اور انہیں جو جو  غلط فہمیاں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے نااتفاقی کی یہ صورت بن کر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ چکی ہے اسے دور کرکے والدہ کو راضی کر لے، اگر یہ کام خود انجام نہ دے سکے تو خاندان کے دیگر بڑے حضرات کے ذریعے اس کام کو انجام دے۔البتہ اگر  زید کی بیوی والدہ کے  ساتھ  اچھا برتاؤ نہ کرتی ہو، یا ان کی گستاخی کرتی ہواور بدگوئی اور بے رخی سے پیش آتی ہو تو ایسی صورت میں زید کو چاہیے کہ اسے خود بھی سمجھائے، اور بیوی کے خاندان کے بزرگ اور سمجھدار حضرات کے ذریعے بھی اسے سمجھانے کی کوشش کرے،  اس کے باوجود بھی اگر وہ اس عمل سے باز نہ آتی ہو تو پھر ان کے مطالبہ پر طلاق دینے کی گنجائش ہوگی، تو ایسی صورت میں طلاق دینے پر زید  گناہ گار بھی نہیں ہوگا، لہٰذا  حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك.

 (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك» ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله".

(كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، الفصل الثالث، ج:1، ص:132، رقم الحدیث:61، ط:دار الفكر بيروت)

’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں ہے:

’’والدین کے ناحق طلاق کے حکم کو ماننا جائز نہیں!

سوال: والدین اگر بیٹے سے کہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور بیٹے کی نظر میں اس کی بیوی صحیح ہے، حق پر ہے، طلاق دینا اس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے، تو اس صورت میں بیٹے کو کیا کرنا  چاہیے؟ کیوں کہ ایک حدیثِ پاک ہے جس کا قریب یہ مفہوم ہے کہ ”والدین کی نافرمانی نہ کرو، گو وہ تمہیں بیوی کو طلاق دینے کو بھی کہیں“ تو  اس صورتِ حال میں بیٹے کے  لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب: حدیثِ پاک کا منشا یہ  ہے کہ بیٹے کو والدین کی اطاعت و فرماں برداری میں سخت سے سخت آزمائش کے  لیے بھی تیار رہنا چاہیے، حتیٰ کہ بیوی بچوں سے جدا ہونے اور گھر بار چھوڑنے کے لیے بھی۔ اس کے  ساتھ ماں باپ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بے انصافی اور بے جا ضد سے کام نہ لیں۔ اگر والدین اپنی اس ذمہ داری کو محسوس نہ کریں اور صریح ظلم پر اُتر آئیں تو ان کی اطاعت واجب نہ ہوگی، بلکہ جائز بھی نہ ہوگی۔ آپ کے سوال کی یہی صورت ہے اور حدیثِ پاک اس صورت سے متعلق نہیں۔

          خلاصہ یہ ہے کہ اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اور اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔‘‘

(تنسیخِ نکاح، ج:6، ص:682، ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601102696

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں