بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وعدہ خلافی کرنا اور بھتیجوں کو محروم کرنے کی نیت سے جائیداد وقف اور ہدیہ کرنا


سوال

سوال نمبر 1:      میرے تایا جن کی کوئی اولاد نہیں کا میری "ان پڑھ بیوہ والدہ" سے وعدہ کر کے ان کو دھوکہ دینا،  کہ ہماری اولاد نہیں ہمارے بعد ہمارا سب کچھ (ساری جائیداد آپ کی ہوگی آپ کے بیٹے کی ہوگی)، اور اب اپنے وعدوں کے برخلاف کچھ نہیں دینا اور سب کچھ بیچ کر گاوں میں مسجد بنانا اور باقی سارے پیسے تائی کے نام رکھنا اور اپنے وعدوں کے برخلاف میری والدہ کو کچھ نہ دینا کیسا ہے؟

سوال نمبر 2: اس کے ساتھ ساتھ میری والدہ کا سب کچھ جو میرے تایا کے قبضے میں تھا کراچی میں،  ایک عدد گھر اور ایک عدد رکشاجس کی آمدنی وہ ہمیں نہیں بھیجتے تھے اور میری والدہ یہاں ایبٹ آباد میں اپنا اور میرا پیٹ پالنے کے لئے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے پر مجبور تھیں۔ اور ہم نے تقریبا 8 سال لوگوں کی servant کواٹروں میں گزارے اور وہ میرے تایا اس کے باوجود جو میری والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنا گزارا چلانے کے لئے کماتی تھیں، وہ بھی سال بعد کراچی سے آ کر اپنی خدمت کرواتے اور کھا جاتے تھے جو کہ میری والدہ بھی انہیں کے وعدوں کے پیش نظر خلوص دل سے ان کی خدمت کرتی تھیں مگر آج سمجھ آ رہی ہے وہ  وعدے جھوٹے تھے صرف وقتی طور پر میری "غیر پڑھی لکھی بیوہ والدہ کی سادگی کو استعمال کرنے کے لئے تھے وہ کیسا ہے؟ ۔

سوال 3:      جب میرے تایا کو اپنے والدین کے سنبھالنے کی پریشانی تھی کیونکہ میری تائی کو اس وقت اپنی ساس اور سسر کی خدمت کرنا مشکل لگتا تھا کیونکہ وہ بیمار تھے تب میرے تایا جو کراچی میں رہتے تھے، نے یہاں ایبٹ آباد میں گھر بنایا اور میری والدہ کو ایک بار پھر لالچ دیا اور لوگوں کی servant کواٹروں نکال کر اپنے والدین اور میرے دادا دادی کی خدمت کروانے پر راضی کیا، اس وعدے کے ساتھ کہ ہماری اولاد نہیں ہمارے بعد یہ گھر بھی آپ کاہوگا، اور ہم یہ آپ کے لئے بنا رہے ہیں، ہمارے والدین کی خدمت کرو۔ اس کے بعد انہوں نےایک سے دو ماہ تک اپنے والدین کا خرچہ بھی دیا مگر پھر خرچہ بھی بند کر دیا یہ کیسا ہے؟

سوال نمبر4: میرے تایا کی جب ساری ضرورتیں پوری ہوگئی، مجبوریاں ختم ہو گئی، اور ان کے والدین دنیا سے چلے گئے تو وہ بھی اپنے سارے وعدے بھول گئے اور میری والدہ کو اس گھر سے نکال دیا، جو انہوں نے یہ وعدہ کر کے بنایا تھا "کہ ہم یہ گھر آپ کے لئے بنا رہے ہیں"۔ اب اس گھر کو مسجد کے نام کر دیا ہے جو انہوں نے گاوں میں بنوائی کہ ان کے مرنے کے بعد وہ گھر ان کی مسجد کو چلا جائے۔ کیا ایسا مکان مسجد کے نام لگایا جاسکتا جو بناتے وقت کسی اور نیت اور وعدے سے بنایا گیا ہو؟۔ ایک "ان پڑھ بیوہ" سے بہت سے کیے ہوئے وعدے توڑ کر ان کی یہ نیکی کہ مسجد بنانا اور اس کے نام مکان وقف کرنا کیا قابل قبول ہے؟

جواب

۴،۳،۱) صورت مسئولہ میں  سائل کے تایا کا والدہ سے گھر دینے کا وعدہ کرنا اور اس کے عوض اپنے والدین کی خدمت کروانا    تو شرعا یہ معاملہ  اجارہ کے حکم میں تھا   یعنی تایا نےمذکورہ  خدمت کے عوض متعین گھر کو اجرت بنایا لیکن چونکہ خدمت کا وقت اور ایام تایا نے  طے نہیں کیےتھے جبکہ اس اجارہ کے درست ہونے کے لیے وقت کا متعین ہونا شرط تھا تو شرعا یہ اجارہ فاسد ہوگیا لہذا سائل کی والدہ اب اجرت مثل کی مستحق ہے  یعنی اس طرح کی خدمت کے لیے اگر کسی خادمہ کو رکھا جاتا تو وہ جتنی اجرت دن کے حساب سے وہ لیتی  اسی حساب سے سائل کی والدہ  بھی ہر دن کے عوض اجرت کی مستحق ہے اور  تایا پر یہ اجرت ادا کرنا شرعا واجب ہے۔نیز  چونکہ اجارہ فاسد ہونے کی وجہ سے گھر اجرت نہیں بنا تو سائل اور اس کی والدہ کو اس پر کوئی اختیار نہیں ہے اور  تایا نے جو وصیت کی ہے  کہ میرے بعد یہ مکان مسجد کے لیے وقف ہوجائے تواگر  تایا کے انتقال کے وقت اس مکان کی قیمت  تایا کی کل جائیداد کی ایک تہائی کے برابر یا کم ہوگی  تو یہ  وصیت نافذ العمل ہوگی اور تایا کہ ورثاء پر لازم ہوگا کہ اس کو مسجد کے لیے وقف کریں۔ اور اگر مکان کی مالیت ایک تہائی سے زیادہ ہوگی تو زائد پر عمل کرنے کے لیے تمام عاقل بالغ ورثاء کی اجازت اور رضامندی ضروری  ہوگی۔ 

اس گھر کے علاوہ باقی اشیاء کہ متعلق سائل کی والدہ کو امید دلانا کہ" سب کچھ آپ کا اور آپ کی اولاد کا ہوگا" اور اس کے  بعد میں سامان بیچ دینا یا تائی کے نام کردینا بھی شرعا پسندیدہ نہیں ہے اور تایا اس پر وعدہ خلافی کے گناہ کے مرتکب ہوں گے۔

۲)  صورت مسئولہ میں تایا کا سائل کی  والدہ کا ایک گھر اور رکشہ اپنے قبضہ میں رکھنا اور سائل کی والدہ کو نہ دینا شرعا درست نہیں ہے اور غصب کے حکم میں ہے اور اس پر تایا سخت گناہ گا ر ہوں گے۔ اسی طرح جو رکشہ کی آمدنی تھی وہ بھی تایا کے لیے روک کر رکھنا شرعا جائز نہیں تھا اور تایا کے لیے اس رقم کا استعمال شرعا حرام تھا اور تایا پر لازم ہے کہ وہ رقم سائل کی والدہ کو لوٹائیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعنه قال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: " «أيما رجل ظلم ‌شبرا من الأرض كلفه الله - عز وجل - أن يحفره حتى يبلغ آخر سبع أرضين، ثم يطوقه إلى يوم القيامة حتى يقضى بين الناس» ". رواه أحمد"

(کتاب البیوع باب الغصب و العاریۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۹۷۹،دار الفکر)

وفيه ايضاّ:

"عن زيد بن أرقم - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: " «إذا وعد الرجل أخاه ومن نيته أن يفي له، فلم يف ولم يجئ للميعاد، فلا إثم عليه» " رواه أبو داود، والترمذي

(فلم يف) أي: بعذر (ولم يجئ للميعاد) أي: لمانع (فلا إثم عليه) . قال الأشرف: هذا دليل على أن النية الصالحة يثاب الرجل عليها وإن لم يقترن معها المنوي وتخلف عنها. اهـ. ومفهومه أن من وعد وليس من نيته أن يفي، فعليه الإثم سواء وفى به أو لم يف، فإنه من أخلاق المنافقين، ولا تعرض فيه لمن وعد ونيته أن يفي ولم يف بغير عذر، فلا دليل لما قيل من أنه دل على أن الوفاء بالوعد ليس بواجب، إذ هو أمر مسكوت عنه على ما حررته، وسيجيء بسط الكلام على هذا المرام في آخر باب المزاحْ."

(کتاب الآداب باب الوعد ج نمبر ۷ ص نمبر۳۰۵۹، دار الفکر)

وفيه ايضاّ:

"وعن أبي هريرة - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «إن الرجل ليعمل والمرأة بطاعة الله ستين سنة، ثم يحضرهما الموت، فيضاران في الوصية، فتجب لهما النار» . ثم قرأ أبو هريرة {من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار} [النساء: 12] إلى قوله {وذلك الفوز العظيم} [النساء: 13] رواه أحمد، والترمذي، وأبو داود، وابن ماجه

«فيضاران في الوصية» ) من المضارة أي: يوصلان الضرر إلى الوارث بسبب الوصية للأجنبي بأكثر من الثلث، أو بأن يهب جميع ماله لواحد من الورثة كيلا يرث وارث آخر من ماله شيئا، فهذا مكروه وفرار عن حكم الله تعالى، ذكره ابن الملك، وفيه: أنه لا يحصل بهما ضرر لأحد، اللهم إلا أن يقال معناه فيقصدان الضرر، وقال بعضهم: كان يوصي لغير أهل الوصية أو يوصي بعدم إمضاء ما أوصى به حقا بأن ندم من وصيته أو ينقض بعض الوصية ( «فتجب لهما النار» ) أي: ذهبت والمعنى يستحقان العقوبة، ولكنهما تحت المشيئة."

(کتاب البیوع باب الوصیۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۰۳۹،دار الفکر)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما الإجارة الفاسدة، وهي التي فاتها شرط من شروط الصحة فحكمها الأصلي هو ثبوت الملك للمؤاجر في أجر المثل لا في المسمى بمقابلة استيفاء المنافع المملوكة ملكا فاسدا؛ لأن المؤاجر لم يرض باستيفاء المنافع إلا ببدل.

ولا وجه إلى إيجاب المسمى لفساد التسمية فيجب أجر المثل، ولأن الموجب الأصلي في عقود المعاوضات هو القيمة؛ لأن مبناها على المعادلة، والقيمة هي العدل إلا أنها مجهولة؛ لأنها تعرف بالحزر والظن، وتختلف باختلاف المقومين، فيعدل منها إلى المسمى عند صحة التسمية، فإذا فسدت وجب المصير إلى الموجب الأصلي، وهو أجر المثل ههنا؛ لأنه قيمة المنافع المستوفاة."

(کتاب الاجارۃ، فصل فی حکم الاجارۃ ج نمبر ۴  ص نمبر ۲۱۸، دار الکتب العلمیۃ)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما في الأجير الخاص فلا يشترط بيان جنس المعمول فيه ونوعه وقدره وصفته، وإنما يشترط بيان المدة فقط وبيان المدة في استئجار الظئر شرط جوازه بمنزلة استئجار العبد للخدمة؛ لأن المعقود عليه هو الخدمة، فما جاز فيه جاز في الظئر وما لم يجز فيه لم يجز فيها، إلا أن أبا حنيفة استحسن في الظئر أن تستأجر بطعامها وكسوتها لما نذكره في موضعه إن شاء الله تعالى، ولو استأجر إنسانا ليبيع له ويشتري ولم يبين المدة لم يجز لجهالة قدر منفعة البيع والشراء، ولو بين المدة بأن استأجره شهرا ليبيع له ويشتري جاز؛ لأن قدر المنفعة صار معلوما ببيان المدة."

(کتاب الاجارۃ، فصل فی انواع رکن الاجارۃ، ج نمبر۴ ص نمبر ۱۸۴)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100611

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں