بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

وعدۂ نکاح سے شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوتا


سوال

ہمارے ہاں رواج ہے کہ بچپن میں ہی یا بلوغت کے وقت کسی لڑکی کو لڑکے کے نام کردیتے ہیں، مثلا زید کا بیٹا  عمرو ہے اور بکر کی بیٹی فاطمہ ہے، تو زید نے بکر سے اپنے بیٹے کےلئے فاطمہ کا ہاتھ مانگا اور بکر نے ہاں کردی ،پھر یہ بھی ایک رواج ہے کہ زید نے فاطمہ کےعوض پیسے دئیے 2 لاکھ روپے اور بکر نے وہ پیسے لے بھی لیے، اس کو ہمارے ہاں نکاح کہا جاتا ہے ۔

پھر بکر کا بیٹا عمرو اپنی ہونے والی بیوی کو گلاب کا پھول اور پچاس ہزار روپے دیتا ہے، جس سے یہ بات ہمارے ہاں واضح ہوجاتی ہے کہ اب نکاح پختہ ہوگیا، اگر چہ وہ لڑکی یعنی فاطمہ بالغ بھی ہے اور اس کو یہ لڑکا پسند بھی نہ ہو، مگر والدین کی رضا میں اپنی رضا شامل کردیتی ہے اور اس کے بعد جب دونوں کی شادی کا موقع آتا ہے تو نئے سرے سے نکاح اور ایجاب و قبول ہوتا ہے۔

 مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ زید کا بیٹا عمرو تقریبا 15 سال سے کسی دوسرےملک میں گرفتار ہے،  اور خلاصی کی امید بھی    ہے اور نہیں بھی ،اب وہ لڑکی اس کے انتظارمیں بیٹھی ہے اور پریشان بھی ہے ،جب کہ دونوں کے گھر والوں کا موقف ہے کہ ان کا نکاح ہوچکا ہے، اب یہ کسی اور کےساتھ نکاح نہیں کرسکتی۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ آیا ان دونوں کا نکاح شریعت کی رو سے ہوچکا ہے یا نہیں ؟اگر ہوچکا ہےتو خلاصی کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟کیوں کہ زید کے بیٹے عمرو کی واپسی کی امید اور نا امیدی دونوں برابر ہے۔ 

جواب

واضح رہے کہ نکاح منعقد ہونے کے لیے  دو  عاقل ،بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں زبان سے ایجاب و قبول کرنا   ضروری ہے ، ان دونوں شرائط کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا ،صورتِِ مسئولہ میں سائل کی جانب سے  ذکر کردہ  طریقہ جس میں  "والدین کی جانب سے ایک دوسرے کی اولاد کےمابین رشتے کی بات طے کی جاتی ہے اور بعد میں لڑکے کی جانب سے لڑکی کو گلاب کا پھول دینے سے نکاح پختہ سمجھا جاتا ہے" یہ درحقیقت  نکاح کا وعدہ ہے، نکاح نہیں ہے،محض ان افعال کے انجام دےلینے سے لڑکی اور لڑکے درمیان کسی صورت نکاح منعقد نہیں ہوگا، بلکہ نکاح منعقد ہونے کے لیے ضروری ہوگا کہ شرعی طریقے کے مطابق باقاعدہ ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح کیا جاۓ۔

مذکورہ تفصیل کے بعد چوں کہ صورتِ مسئولہ میں  زید کے بیٹے اور عمرو کی بیٹی کے درمیان باقاعدہ نکاح نہیں ہوا ہے ،صرف نکاح کا وعدہ ہوا ہے اس لیے ابھی تک دونوں کا نکاح قائم نہیں ہوا،اور لڑکی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"الخطبة مجرد وعد بالزواج، وليست زواجاً ، فإن الزواج لا يتم إلا بانعقاد العقد المعروف، فيظل كل من الخاطبين أجنبياً عن الآخر، ولا يحل له الاطلاع إلا على المقدار المباح شرعاً وهو الوجه والكفان...الخطبة والوعد بالزواج وقراءة الفاتحة وقبض المهر وقبول الهدية، لا تكون زواجاً."

(‌‌القسم السادس: الأحوال الشخصية،‌‌ الباب الأول: الزواج وآثاره، ‌‌الفصل الأول: مقدمات الزواج،‌‌ خامسا ما يترتب على الخطبة، 6492/9، ط:دار الفکر)

ہدایہ میں ہے:

"قال: " النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي " لأن الصيغة وإن كانت للإخبار وضعا فقد جعلت للإنشاء شرعا دفعا للحاجة " ‌وينعقد بلفظين يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبل مثل أن يقول زوجني فيقول زوجتك."

"قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه:اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود."

(کتاب النکاح ،325،26/2،ط:رحمانیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك(و) يقول الآخر (تزوجت، و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال."

"إنما قلنا هذا؛ لأن الشرع يعتبر الإيجاب والقبول أركان عقد النكاح لا أمورا خارجية كالشرائط."

(کتاب النکاح،8,9/3،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(‌وأما ‌ركنه) فالإيجاب والقبول، كذا في الكافي.

(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه و شرطه و حكمه،367/1, ط: رشيدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501102526

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں