بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈبلیو سی کا قبلہ سے نکتہ انحراف کم سے کم کتنا ہو؟


سوال

بیت الخلاء میں ڈبلیو سی کا کم از کم نکتۂ انحراف قبلہ سے کتنا ہو؟

جواب

بیت الخلاء بناتے وقت سب سے بہتر تو یہ ہے کہ ڈبلیو سی کو قبلہ کے بالکل مخالف اس طرح بنایا جائے کہ  قبلہ کی طرف چہرہ اور پیٹھ دونوں نہ ہوں،مثلاہمارے علاقوں میں قبلہ  مغرب کی سمت  ہےتو ڈبلیو  سی کو شمالاً جنوباً بنانا چاہیے ،البتہ کم سے کم قبلہ رخ سے 45 درجہ کا انحراف تو ضروری ہے ، اس سے کم  انحراف کافی نہیں ۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا أتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها ولكن شرقوا أو غربوا»."

(‌‌باب آداب الخلاء،الفصل الاول،ج:1،ص:109،ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

الدر المختار مع رد المحتا ر میں ہے :

"(كما كره) تحريما (استقبال قبلة واستدبارها ل) أجل (بول أو غائط) فلو للاستنجاء لم يكره (ولو في بنيان) لإطلاق النهي (فإن جلس مستقبلا لها) غافلا (ثم ذكره انحرف)."

(کتاب الطہارۃ،‌‌باب الأنجاس،فصل الاستنجاء،ج:1،ص:341،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: فانحرف عنها) أي: بجملته أو بقبله حتى خرج عن جهتها والكلام مع الإمكان، فليس في الحديث دلالة على أن المنهي استقبال العين كما لا يخفى فافهم."

(کتاب الطہارۃ،‌‌باب الأنجاس،فصل الاستنجاء،ج:1،ص:342،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"ثم اعلم أنه ذكر في المعراج عن شيخه أن جهة الكعبة هي الجانب الذي إذا توجه إليه الإنسان يكون مسامتا للكعبة أو هوائها تحقيقا أو تقريبا، ومعنى التحقيق أنه لو فرض خط من تلقاء وجهه على زاوية قائمة إلى الأفق يكون مارا على الكعبة أو هوائها؛ ومعنى ‌التقريب أن يكون منحرفا عنها أو عن هوائها بما لا تزول به المقابلة بالكلية، بأن يبقى شيء من سطح الوجه مسامتا لها أو لهوائها. وبيانه أن المقابلة في مسافة قريبة تزول بانتقال قليل من اليمين أو الشمال مناسب لها، وفي البعيدة لا تزول إلا بانتقال كثير مناسب لها فإنه لو قابل إنسان آخر في مسافة ذراع مثلا تزول تلك المقابلة بانتقال أحدهما يمينا بذراع وإذا وقعت بقدر ميل أو فرسخ لا تزول إلا بمائة ذراع أو نحوها، ولما بعدت مكة عن ديارنا بعدا مفرطا تتحقق المقابلة إليها في مواضع كثيرة في مسافة بعيدة، فلو فرضنا خطا من تلقاء وجه مستقبل الكعبة على التحقيق في هذه البلاد ثم فرضنا خطا آخر يقطعه على زاويتين قائمتين من جانب يمين المستقبل وشماله لا تزول تلك المقابلة والتوجه بالانتقال إلى اليمين والشمال على ذلك الخط بفراسخ كثيرة، فلذا وضع العلماء القبلة في بلاد قريبة على سمت واحد اهـ ونقله في الفتح والبحر وغيرهما وشروح المنية وغيرها، وذكره ابن الهمام في زاد الفقير. وعبارة الدرر هكذا: وجهتها أن يصل الخط الخارج من جبين المصلي إلى الخط المار بالكعبة على استقامة بحيث يحصل قائمتان. أو نقول: هو أن تقع الكعبة فيما بين خطين يلتقيان في الدماغ فيخرجان إلى العينين كساقي مثلث، كذا قال النحرير التفتازاني في شرح الكشاف، فيعلم منه أنه لو انحرف عن العين انحرافا لا تزول منه المقابلة بالكلية جاز، ويؤيده ما قال في الظهيرية: إذا تيامن أوتياسر تجوز لأن وجه الإنسان مقوس لأن عند التيامن أو التياسر يكون أحد جوانبه إلى القبلة اهـ."

(کتاب الصلاۃ،‌‌باب شروط الصلاة،ج:1،ص:428،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ويكره) تحريما (استقبال القبلة بالفرج) ولو (في الخلاء) بالمد: بيت التغوط، وكذا استدبارها (في الأصح...

(قوله استقبال القبلة بالفرج) يعم قبل الرجل والمرأة. والظاهر أن المراد بالقبلة جهتها كما في الصلاة، وهو ظاهر الحديث المار وأن التقييد بالفرج يفيد ما صرح به الشافعية أنه لو استقبلها بصدره وحول ذكره عنها لم يكره، بخلاف عكسه كما قدمناه في باب الاستنجاء وتقدم هناك أن المكروه الاستقبال أو الاستدبار لأجل بول أو غائط، فلو للاستنجاء لم يكره: أي تحريما.

وفي النهاية: ولو غفل عن ذلك وجلس يقضي حاجته ثم وجد نفسه كذلك فلا بأس، لكن إن أمكنه الانحراف ينحرف فإنه عد ذلك من موجبات الرحمة، فإن لم يفعل فلا بأس."

(کتاب الصلاۃ،‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،مطلب في أحكام المسجد،ج:1،ص:655،ط:سعید)

فتاوی محمودیۃ میں ہے:

"سوال : ایک صاحب خیر نے اپنی مشترکہ آمدنی سے امام مسجد کے لیے بیت الخلاء تعمیر کرایا جس کا استعمال ہر ایک شخص کرے گا ، وہ بھی صرف رات میں ، ورنہ ہمہ وقت مقفل رہے گا۔ عمارت کی مناسبت سے طہارت و صفائی کے لحاظ سے جس رخ پر قدمچے بن گئے ہیں، اب خیال ہوا کہ ان پر ارتکاب استقبال قبلہ (جو بین الائمہ مختلف فیہ ہے) ہوگا۔ کیا اس سے بچنے کے لیے قدرے انحراف صدر کا فی ہوسکتا ہے ؟ بصورت دیگر اگر قدمچے توڑدیے جائیں تو اضاعت مال مسلم نہ ہوگا؟

الجواب ـ: صرف انحراف صدر تو حنفیہ کے نزدیک کافی نہیں ، اگر بیٹھنے کی ہیئت ایسی ہوجائے کہ شمال یا جنوب کا رخ ہوجائے اور استقبال نہ رہے تو درست ہے ، مگر اس بیت الخلاء کی یہ تخصیص و تقیید ہمیشہ تو رہے گی نہیں ، بلکہ ختم ہو کر دوسرے لوگ بھی کسی وقت استعمال کریں گے اور موجودہ حال میں بھی کسی اور وقتی مہمان وغیرہ کا استعمال کرنا بعید نہیں ۔ اس کی موجودہ ہیئت کے غیر مشروع ہونے کا سب کو علم ہونا ضروری نہیں ، بلکہ بنانے والوں کے واقف مسائل ہونے کی بناء پر موجودہ بناوٹ کو مشروع تجویز کرکے بغیر انحراف کے ہی استعمال کیا جائے گا، لہذا اس کی بناوٹ میں ہی تغیر کردی جائے تاکہ اس کا رخ صحیح ہوجائے۔ غلطی کی اصلاح کے لیے خرچ کرنا اضاعت نہیں ، ہاں غلط کام کے لیے خرچ کرنا اضاعت ہے۔"

(باب الاستنجاء ج:5،ص:301،302ط:دارالافتاء ،جامعہ فاروقیہ )

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501102331

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں