بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طواف زیارت کا وقت اور طریقہ


سوال

طواف زیارت کا صحیح وقت اور طریقہ کیا ہے؟

جواب

  طوافِ زیارت دس ذوالحجہ کی صبح صادق سے بارہ ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب تک کیا جاسکتا ہے۔اگر اس وقت میں طواف نہیں کیا تو بعد میں بھی کرنا ہوگا، یہ ذمہ پر رہے گا، البتہ بلاعذرِ شرعی تاخیر  سے اداکرنے کی وجہ سے دم واجب ہوگا،باقی اس کا طریقہ وہی ہے جو عام طواف کا ہے،البتہ  اگر بعد میں سعی کرنے کا ارادہ ہے توپہلے تین چکروں میں  رمل کیا جائے گا۔اور اگر حج کی سعی پہلے کرچکا ہے، اور احرام کھولنے کے بعد طوافِ زیارت کررہا ہے، تو نہ رمل کرے گا اور نہ ہی اضطباع کیا جائے گا؛ کیوں کہ رمل و اضطباع صرف اسی طواف میں ہوتا ہے جس کے بعد سعی کرنے کاارادہ ہو۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) طواف الزيارة (أول وقته بعد طلوع الفجر يوم النحر وهو فيه) أي الطواف في يوم النحر الأول (أفضل ويمتد) وقته إلى آخر العمر (وحل له النساء) بالحلق السابق، حتى لو طاف قبل الحلق لم يحل له شيء، فلو قلم ظفره مثلا كان جناية لأنه لا يخرج من الإحرام إلا بالحلق (فإن أخره عنها) أي أيام النحر ولياليها منها

قوله بيان للأكمل) أي الطواف الكامل المشتمل على الركن والواجب، نبه على ذلك لئلا يتوهم أن السبعة ركن كما يقوله الأئمة الثلاثة وإن وافقهم المحقق ابن الهمام بحثا فإنه خلاف المذهب فلا يتابع عليه (قوله وإن كان سعى قبل) لم يقل إن كان رمل وسعى قبل إشارة إلى أنه لو كان سعى قبل ولم يرمل لا يرمل هنا لأن الرمل إنما يشرع في طواف بعده سعي كما مر ولا سعي هاهنا كما في العناية وكذا في اللباب وفيه وأما الاضطباع فساقط مطلقا في هذا الطواف اهـ سواء سعى قبله أو لا (قوله وإلا فعلهما) أي وإن لم يكن سعى قبل رمل وسعى وإن رمل قهستاني أي لأن رمله السابق بلا سعي غير مشروع كما علمته فلا يعتبر."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،کتاب الحج،مطلب فی طواف الزیارۃ، (2/ 518)،دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں