بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ووٹ کے بدلہ پیسے لے کر مسجد کی تعمیر کا حکم


سوال

پُوری بستی اپنی مرضی سے ایک پارٹی کو ووٹ دینے پر متّفق ہیں اور ہم نے اسی کو ووٹ بھی دیا ہے اور اُس کے بدلے میں 50000 ہزار نقد لیے ہیں، کیا اُس پیسے کو مسجدِ کی تعمیر میں لگا سکتے ہیں یا نہیں ؟نہیں تو کیوں نہیں ؟جب کہ جیتنے کے بعد ایم ایل اے کے ذریعہ مدرسے کی تعمیر کرائی گئی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ ووٹ لینے کے لیے پیسوں کا لین دین کرنا شرعا جائز نہیں، دی گئی رقم  کی حیثیت رشوت کی ہے اور رشوت کا لین دین ناجائز اور حرام ہے ؛لہذا صورت ِمسئولہ میں اگر ووٹ کے بدلہ میں پچاس ہزار روپے  لیے ہوں تو ان پیسوں کو مسجد کی تعمیر میں لگانا جائز نہیں ہے ۔

فتح القدیر میں ہے :

"‌بخلاف ‌الشهادة ‌فإنها ‌فرض يجب على الشاهد أداؤها فلا يجوز فيها التعاوض أصلا."

(کتاب الوکالۃ،ج:۸،ص:۳،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌وفي ‌المصباح ‌الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد."

(کتاب القضاء،مطلب  فی الکلام علی الرشوۃ،ج:۵،ص:۳۶۲،سعید)

کفایت المفتی میں ہے :

ووٹ کی قیمت لینا  اور اس کو مسجد میں صرف کرنا جائز نہیں 

سوال:زید نے ووٹ دینے کے عوض  پیسہ لینا جائز کہا ہے ،اور اس سے مسجد کی مرمت کرنا بھی جائز بتایا ہے ،رشوت کو جائز سمجھنا کفر ہے یا نہیں ؟

جواب:ووٹ کی قیمت وصول کرنا جائز نہیں ،اور ایسا روپیہ مسجد میں نہیں لگ سکتا ۔

(کتاب السیاسیات،ج؛۹،ص:۳۵۴،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101904

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں