جماعت اسلامی کو ووٹ دینے کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ ووٹ دینے کی از روئےشرع تین حیثیتیں ہیں:
ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس امیدوار کو اپنا ووٹ دے رہا ہے، اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت اور امانت بھی،اس اعتبار سے غیر مستحق امیدوار کو ووٹ دینا جھوٹی گواہی ہے جو کہ گناہِ کبیرہ ہے ۔
دوسری حیثیت شفاعت( یعنی سفارش) کی ہے کہ ووٹر اس شخص کی نمائندگی کی سفارش کرتاہے۔
تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے ،لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی (ذاتی) حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا اور اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا، توپھر بھی معاملہ ہلکا تھا،مگر ووٹ میں ایسا نہیں، کیوں کہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جس میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے ، اس لیے اگر کسی نا اہل کو اپنی نمائندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کے گردن پر آئے گا۔
تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک ، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثوابِ عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نا اہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔
مذکورہ بالا تفصیل كو مدِ نظر ركھتے ہوئے ووٹ ایسےامید وار کو دینا چاہیے جو خود بھی مطلوبہ اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہو ، اس کا جماعتی منشور بھی درست ہو اوراس کے متعلق اطمینان ہو کہ وہ دینی و دنیوی لحاظ سے بہتر اقدامات کر سکتا ہے۔
قرآن مجید میں باری تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے :
"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَماناتِ إِلى أَهْلِها."(النساء : ۵۸)
دوسرے مقام پر ارشادِ پاك هے :
"مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا." ﴿النساء: ٨٥﴾
تفسیر مظہری میں ہے:
"من يشفع شفاعة حسنة راعى بها حق مسلم ودفع بها عنه ضررا او جلب نفعا لوجه الله تعالى يكن له اى للشافع نصيب منها وهو ثواب الشفاعة قال مجاهد هى شفاعة بعضهم لبعض ويؤجر الشفيع على شفاعته وان لم يشفع..........ومن يشفع شفاعة سيئة الموجبة للحرمان وقال ابن عباس هى المشى بالنميمة وقيل هى الغيبة واساءة القول فى الناس ينال به الشر يكن له كفل اى حظ منها اى من وزرها."
(النساء ، آیت : ۷۵ جلد ۲ ص : ۱۷۲ ط : مکتبةالرشدیة ۔ الباکستان)
جواہر الفتاوی میں ہے :
"حضرت مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر معارف القرآن اور جواہر الفقہ میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :کہ شرعی اعتبار سے ووٹ دینا در اصل اس بات کی شہادت دینا ہوتا ہے کہ جس کو ووٹ دیا جارہا ہے وہ اس کی نمائندگی کے لیے اہل ہے اس کے اندر تمام صفات و اہلیت کی تمام شرائط لازمی موجود ہیں ،نیز ووٹ دینا ایک شرعی امانت داری ذمہ داری کو ادا کرنا ہوتا ہے ،ووٹ دینے والا ووٹ دے کر قومی امانت کے بار امانت کو منتخب نمائندہ کے سپرد کرتا ہے ،تیسرے اس میں وکالت بھی ہوتی ہے کہ ووٹ دینے والا شخص ،نمائندہ کو اپنا وکیل بنا دیتا ہے کہ وہ جو کچھ کرے گا اس کے گناہ و ثواب میں ووٹ دینے والا بھی شریک ہوگا ۔"
(جواہر الفتاوی،ج:۳،ص:۳۵۰،اسلامی کتب خانہ )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506102669
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن