بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ووٹ کیسے شخص کو دیں؟


سوال

کیا ووٹ دیتے ہوے یا کسی بھی سیاسی پارٹی لیڈر کو سپورٹ کرتے ہوئے اس کے دنیاوی معاملات کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہے کہ وہ عملاً اسلام کے مطابق بھی کچھ کرتا ہے یا بس باتوں کی حد تک اسلام کے نام ووٹ حاصل کر رہا ہے جب کہ اس کے دنیاوی معاملات اس کے برعکس ہوں اور ووٹ دینے والا بھی بخوبی اس واقف ہو کہ غیر شرعی حرکات میں ملوث ہے جن باتوں سے اسلام نے واضح منع کیا ہو وہ ان کی حرکات کی چھوٹ دیتا ہو اپنے سپورٹرز کو اور ان کو منع بھی نہ کرے غیر شرعی حرکات سے تو کیا ایسے انسان کو حکمران بنانا یا اپنا نمائندہ چننا جائز ہے؟ کیا بحیثیت مسلمان ہم پر لازم نہیں کہ ہم اپنے حکمران ایسے بنائیں جن کی دنیاوی زندگی اسلامی احکامات کے تابع ہو اور یہ  بات کہ ہمیں ایسا کوئی ملتا نہیں اس لیے ووٹ جانتے  ہوئے کہ یہ شخص اسلامی میعار پر پورا تو کیا کچھ بھی خوبی نہ رکھتا ہو پھر بھی اس کو ووٹ دینا لازم ہے یا ووٹ دینے سے احتراز کرنا چاہیے؛ تاکہ اس کے غیر شرعی اقدامات میں معاون نہ بنا جائے۔ 

جواب

واضح رہے کہ ووٹ   دینے  کی از روئے  قرآن و  حدیث چند حیثیتیں ہیں:

ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے، اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور  دیانت اور  امانت بھی،اس اعتبار  سے  غیر مستحق امیدوار کو ووٹ دینا جھوٹی گواہی ہے  جو کہ گناہِ کبیرہ ہے ۔ 

دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتاہے۔

ووٹ کی ایک تیسری حیثیت  وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے ،لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی (ذاتی) حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا اور اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا، توپھر بھی معاملہ ہلکا تھا،مگر یہاں ایسا نہیں، کیوں کہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جس میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے ، اس  لیے اگر کسی نا اہل کو اپنی نمائندگی  کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کے گردن پر رہا۔

خلاصہ یہ ہے کہ  ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے:

۱۔ ایک شہادت۔۲۔دوسرے سفارش۔۳۔تیسرے حقوقِ مشترکہ میں وکالت۔

تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک ، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثوابِ عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نا اہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ 

لہذا صورت مسئولہ میں ذکرکردہ شخص کو ووٹ دینا شرعا جائز نہیں ہے لہذا کسی نیک صالح اور دین دار  شخص کو ووٹ دیا جائے اگر کوئی امیدوار مکمل طور پر دین دار نہ ہو تو ایسے شخص کو ووٹ دیا جائے جو بنسبت دوسروں کے نیک اور دین دار ہو اور اگر کوئی بھی اس قسم کا امیدوار نہ ملے یعنی اس حلقہ کے سارے امیدوار فاسق ہوں تو اس صورت میں ووٹ نہ دینے کی اجازت ہے۔

جواہر الفتاوی میں ہے :

"حضرت مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر معارف القرآن اور جواہر الفقہ میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :کہ شرعی اعتبار سے ووٹ دینا در اصل اس بات کی شہادت دینا ہوتا ہے کہ جس کو ووٹ دیا جارہا ہے وہ اس کی نمائندگی کے لیے اہل ہے اس کے اندر تمام صفات و اہلیت کی تمام شرائط لازمی موجود ہیں ،نیز ووٹ دینا ایک شرعی امانت داری ذمہ داری کو ادا کرنا ہوتا ہے ،ووٹ دینے والا ووٹ دے کر قومی امانت کے بار امانت کو منتخب نمائندہ کے سپرد کرتا ہے ،تیسرے اس میں وکالت بھی ہوتی ہے کہ ووٹ دینے والا شخص ،نمائندہ کو اپنا وکیل بنا دیتا ہے کہ وہ جو کچھ کرے گا اس کے گناہ و ثواب  میں ووٹ دینے والا بھی شریک ہوگا ۔"

(جواہر الفتاوی،ج:۳،ص:۳۵۰،اسلامی کتب خانہ )

قرآن مجید میں ہے : 

"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَماناتِ إِلى أَهْلِها" (النساء : ۵۸)

تفسیر مظہری میں ہے:

"من ‌يشفع شفاعة حسنة راعى بها حق مسلم ودفع بها عنه ضررا او جلب نفعا لوجه الله تعالى يكن له اى للشافع نصيب منها وهو ثواب الشفاعة قال مجاهد هى شفاعة بعضهم لبعض ويؤجر الشفيع على شفاعته وان لم يشفع..........ومن يشفع شفاعة سيئة الموجبة للحرمان وقال ابن عباس هى المشى بالنميمة وقيل هى الغيبة واساءة القول فى الناس ينال به الشر يكن له كفل اى حظ منها اى من وزرها."

(النساء ، آیت : ۷۵ جلد ۲ ص : ۱۷۲ ط : مکتبةالرشدیة ۔ الباکستان)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144309100794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں