بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کمیٹی کا ووٹ کے بدلے پیسے لے کر اس سے مسجد کے بیت الخلاء تعمیر کرنا


سوال

ایک  وارڈ  ممبر  نے الیکشن  جیتنے  کے لیے مسجد کمیٹی سے  ایک معا ملہ کیا ہے، وہ یہ کہ آنے والے الیکشن میں اپنی بستی کے تمام ووٹ مجھے دلائیں،  میں اس کے بدلے 30/ہزار روپیہ دیتا ہوں، اور مسجد کمیٹی اس رقم سے مسجد کا باتھ روم وغیرہ بنا نا چاہتی ہے، تو  کیا اس طرح کا معاملہ کرنا  اور  پھر اس رقم سے باتھ روم کی تعمیر کر نا از  روئے شرع جائز ہے؟

جواب

ووٹ  جمہوری نظام  میں  رائے  شماری  کے عمل کا نام ہے،  جس کا  مقصد ملکی نظام اور عوامی نمائندگی کے  لیے مناسب نمائندہ کا انتخاب کرنا ہے، اگر کوئی اس رائے کے آزادانہ استعمال کے بجائے کسی اور طریقہ یا جبر سے رائے تبدیل کرانے کی کوشش کرے یا کرانے کا حربہ استعمال کرے اور اس کے لیے  روپیہ  پیسہ  دےتو  یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے،  لہذا   کسی بھی نام سے  کوئی روپیہ یا  مال لے کر کسی کو ووٹ دینا یا دلوانا  یا کسی کے  لیے راہ  ہم وار  کروانا ناجائز ہے  اور    یہ رقم لینا اور اس کی بنیاد پر ووٹ دینا دونوں حرام ہیں؛ اس لیے  مسجد کمیٹی کا وارڈ  ممبر سے ایسا معاملہ کرنا شرعًا ناجائز ہے اور اگر رقم لی ہے تو اس رقم کو  اس ممبر کو واپس کرنا  ضروری ہے، بیت الخلاء  کی تعمیر میں استعمال نہیں کرسکتے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 362):

"وفي المصباح الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد."

وفیہ ایضا(385/6):

"وعلى هذا قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 200019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں