بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ووٹ دلوانے کے لیے ووٹر کو کرایہ دینا


سوال

 ووٹ دینے کے لیے باہر گاؤں سے جو لوگ آتے ہیں ان کے لیے کرایہ لینا کیسا ہے؟  

جواب

واضح رہے کہ  جمہوری نظام میں  ووٹنگ رائے شماری کے عمل کا نام ہے، جس کا  مقصد ملکی نظام اور عوامی نمائندگی کے لئے مناسب و اہل  نمائندہ کا انتخاب کرنا ہے، اور اس انتخابی عمل کی بنیاد ووٹر کی دیانتداری ہے، کہ ہر شخص آزادانہ طور پر اپنا یہ حق استعمال کرے،  پس الیکشن میں کھڑے نمائندہ کی جانب سے ایسا کوئی  اقدام  کرنا  جو    ووٹر کی دیانت کو متاثر کرنے کا باعث ہو ( یعنی ووٹر آزادانہ  طور پر اپنا ووٹ دینے کے بجائے اپنی مرضی کے خلاف ووٹ کرنے پر مجبور ہوجائے) جائز نہیں۔

لہذا صورت  مسئولہ میں  کرایہ کے نام پر نمائندہ کی جانب سے  رقم دے کر  ووٹر   کو اپنی پارٹی کے نمائندہ کو ووٹ ڈالنے پر مجبور کرنا   رشوت کے زمرے میں آئے گا،  لہذا   کسی بھی نام سے  کوئی روپیہ یا کوئی مال لے کر کسی کو ووٹ دینا یا دلوانا  یا کسی کے لئے راہ  ہموار کروانا ناجائز ہے  اور  یہ رقم لینا اور اس کی بنیاد پر ووٹ دینا دونوں ناجائز ہیں ۔

رد المحتار علی الدر المختارمیں ہے:

"(قوله: أخذ القضاء برشوة) بتثليث الراء قاموس وفي المصباح الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد، جمعها رشا مثل سدرة وسدر، والضم لغة وجمعها رشا بالضم اهـ وفيه البرطيل بكسر الباء الرشوة وفتح الباء عامي.

وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة. الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه.... الخ."

( كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ٥ / ٣٦٢، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405100382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں