بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر معجل کس وقت ادا کرنا چاہیے؟ نکاح کے وقت یا رخصتی کے وقت؟


سوال

مہر معجل کس وقت ادا کرنا چاہیے؟ نکاح کے وقت یا رخصتی کے وقت؟

جواب

مہرِمعجل سے مراد وہ مہر ہے جس کا نکاح کے بعدہمبستری سے پہلے فوری طور پر ادا کرنا واجب ہوتا ہے البتہ ہمبستری کرنے سے مؤکد ہوجاتاہے۔

"الموسوعة الفقهية الكويتية" میں ہے:

"المهر في اللغة: صداق المرأة؛ وهو: ما يدفعه الزوج إلى زوجته بعقد الزواج."

(حرف الميم، مهر، ج:39، ص:151، ط:طبع الوزارة)

کفایت المفتی میں ہے:

"مہر معجل سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی ادائیگی فی الفور لازم ہو۔"

(کتاب النکاح، چھٹا باب:مہر، چڑھاوا وغیرہ، ج:5، ص:125، ط:دارالاشاعت کراچی)

وفیہ ایضاً:

"(1)مہر معجل وہ ہے کہ بوقتِ عقد فوراً ادا کردیا جائے یا فوراً ادائیگی کی شرط کرلی جائے۔

(2) مہرمؤجل وہ ہے کہ اس کی ادائیگی کی کوئی اجل یعنی مدت مانی گئی ہو، اگر مدت معین و معلوم ہوتو تاجیل صحیح مثلاً دس برس میں ادا کیا جائے گا یا بیس برس میں ایک دفعہ یا قسط وار۔

(3) مہر عندالطلب درحقیقت کوئی نئی قسم نہیں ہے بلکہ یہ مہر معجل میں داخل ہے جس کے مطالبہ کو فوراً عمل میں لانے سے ذرا ڈھیلا کرکے مطالبہ کرنے تک ملتوی کردیاگیاہے۔

(4) مہرمعجل قرار پائے تو عورت فوراً مطالبہ کرسکتی ہے اور اپنے نفس کو روک بھی سکتی ہےاور شوہر جبراً بغیرادائیگی مہر عورت کولے جانے کا حق نہیں رکھتا، ہاں عورت اپنی خوشی سے خاوند کے ساتھ چلی جائے تو اُسے اختیار ہے۔

(5) اگر مہر معجل قرار پائے تو شوہر کو لازم ہے کہ فوراً اداکردے لیکن اگر وہ ادا نہ کرے یا ادا نہ کرسکتا ہو تو عورت کو یہ حق ہے کہ جب تک مہر وصول نہ کرے خاوند کو اپنے اوپر قدرت نہ دے لیکن اگر عورت مطالبہ نہ کرے اور خود بغیر وصول کیے ہوئے خاوند کے پاس چلی جائے یا اپنے گھر رہے دونوں صورتوں میں نکاح کے اندر کوئی نقصان اور خرابی نہیں آتی، مرد کے ذمہ یہ لازم ہے کہ مہر معجل فوراً ادا کردے، عورت مطالبہ کرے یا نہ کرے مرد پر ادا کردینا ضروری ہے۔

(6) ہاں اگر عورت نے فوراً وصول نہ کرلیا تو گویا وہ عندالطلب جیسا ہوگا، جس وقت بھی چاہے مطالبہ کرسکتی ہے۔فقط۔"

(کتاب النکاح، چھٹا باب:مہر، چڑھاوا وغیرہ، ج:5، ص:138،137، ط:دارالاشاعت کراچی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وإن بينوا قدر المعجل يعجل ذلك، وإن لم يبينوا شيئا ينظر إلى المرأة وإلى المهر المذكور في العقد أنه كم يكون المعجل لمثل هذه المرأة من مثل هذا المهر فيجعل ذلك معجلا ولا يقدر بالربع ولا بالخمس وإنما ينظر إلى المتعارف، وإن شرطوا في العقد تعجيل كل المهر يجعل الكل معجلا ويترك العرف، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الحادي عشر في منع المرأة نفسها بمهرها والتأجيل في المهر، ج:1، ص:318، ط:رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولها منعه من الوطء) ودواعيه شرح مجمع (والسفر بها۔۔۔(لأخذ ما بين تعجيله) من المهر كله أو بعضه۔۔۔۔قوله والسفر) الأولى التعبير بالإخراج كما عبر في الكنز ليعم الإخراج."

(كتاب النكاح، باب المهر، ‌‌مطلب في منع الزوجة نفسها لقبض المهر، ج:3، ص:144،143، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں