ہم چار بھائی ہیں اور سب اکھٹے رہتے ہیں ، والد صاحب بھی حیات ہے، جن کی ملکیت میں دو گھر ہیں، چند دن پہلے محلہ کے کچھ لوگ میرے والد صاحب کے پاس آئے تھے اور والد صاحب سے کہا تھا کہ ایک گھر ہمیں دے دیں تاکہ ہم اسی جگہ پر مسجد بنالیں، جس کے جواب میں والد صاحب نے "ہاں" کردی، اس دوران ہم بھائی گھر پر موجود نہیں تھے، بعد میں جب بھائیوں کو پتہ چلا تو ہم نے والدصاحب کے سامنے تحفظات رکھے تو والد نے بھی کہا کہ واقعی یہ گھر تو ہماری بھی ضرورت ہے، لیکن چوں کہ میں نے "ہاں" کر دی ہے، اس لیے کسی عالم سے راہ نمائی لیں کہ شرعی لحاظ سے کوئی ممانعت تو نہیں ہے، لہذا عرض یہ ہے کہ کیا میرے والد کا ان کے کہنے پر ہاں کرنے سے گھر ان کی ملکیت سے نکل کر وقف ہوگیا ہے یا نہیں؟
ہم سب بھائی اور والد صاحب چاہتے ہیں کہ اگر واقعی محلہ والے مسجد بناتے ہیں تو ہم ان کوا سی محلہ میں دوسری جگہ لے کر دینے کے لیے تیار ہیں۔
وضاحت: والد صاحب دونوں مکانوں میں سے کسی ایک مکان کی تعیین اور افراز ابھی تک نہیں کی ہے، بلکہ محلہ والوں کے مطالبہ پر انہوں نے صرف "ہاں" کر دی ہے۔
واضح رہے کہ وقف مکمل ہونے کے لیے وقف کی جانے والی جگہ کا متعین ہونا ضروری ہے،صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد نے چوں کہ مسجد کے لیے گھر طلب کرنے والوں کے جواب میں صرف "ہاں" کی تھی،کسی ایک مکان کی تعیین نہیں کی تھی، تو صرف "ہاں" کرنے سے کوئی ایک مکان بھی وقف نہیں ہوا، لہٰذا اگر سائل کے والد اسی دو مکانوں کے علاوہ کوئی اور جگہ بھی مسجد کے لیے دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر"میں ہے:
"إذا بنى مسجدا لا يزول ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن بالصلاة فيه ويصلي فيه واحد وفي رواية شرط صلاة جماعة جهرا بأذان وإقامة حتى لو كان سرا بأن كان بلا أذان ولا إقامة لا يصير مسجدا اتفاقا لأن أداء الصلاة على الوجه المذكور بالجماعة وهذه الرواية صحيحة كما في الكافي وغيره."
(كتاب الوقف، فصل إذا بنى الواقف مسجدا لا يزول ملكه، ج:1، ص:747، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت لبنان)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى ) بالفعل و ( بقوله جعلته مسجدا ) عند الثاني ( وشرط محمد ) والإمام ( الصلاة فيه )۔۔۔۔ لأنه لا بد من التسليم عندهما خلافا لأبي يوسف وتسليم كل شيء بحبسه ففي المقبرة بدفن واحد وفي السقاية بشربه وفي الخان بنزوله كما في الإسعاف واشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد."
(كتاب الوقف، ج:6، ص:546، ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144403100391
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن