1۔میں مکہ عمرہ ادا کرنے جاتی ہوں کبھی ایک دن کا قیام ہوتا کبھی اسی دن واپسی ہوتی اس صورت میں کیا اور نماز ادا کرنی ہوتی ہے۔
2۔ حرم میں عشاء کے صرف فرض نماز باجماعت پڑھائی جاتی ہے، تو وتر کیا ہم نے خود پڑھنے ہوتے ہیں؟
1۔ سوال نمبر ایک واضح نہیں ہے، لہذا مذکورہ سوال دوبارہ تحریر کرکے نیز اپنی مراد بھی وضاحت سے لکھ کر ارسال کردیں، پھر ان شاء اللہ جواب دیا جاۓ گا۔
2۔ واضح رہے کہ وترکی نماز پڑھنا واجب ہے، سال کے بارہ مہینے میں سے گیارہ مہینے وتر کی نماز انفرادی طور پر ادا کرنا لازم ہے، البتہ رمضان میں وتر کی نماز مردوں کے لیے با جماعت پڑھنا افضل ہے، لہذا اگر رمضان میں کوئی شخص وتر کی نماز باجماعت ادا کرلے تو بہتر اور اگر وتر کی نماز رمضان میں باجماعت ادا نہ کرسکے تو وتر کی انفرادی ادائیگی لازم ہے، لہذا حرم مکی میں بھی صرف رمضان کے مہینے میں وتر کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے، بقیہ گیارہ مہینے وتر کی نماز باجماعت ادا نہیں کی جاتی لہذا صورت مسئولہ سائلہ پر وتر کی نماز خود پڑھنا لازم ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
(الباب الثامن في صلاة الوتر)
عن أبي حنيفة - رضي الله تعالى عنه - في الوتر ثلاث روايات في رواية فريضة، وفي رواية سنة مؤكدة، وفيرواية واجب وهي آخر أقواله وهو الصحيح.
(كتاب الصلاة،الباب الثامن في صلاة الوتر،فصل في التراويح،110/1، ط: رشيدية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويوتر بجماعة في رمضان فقط عليه إجماع المسلمين، كذا في التبيين الوتر في رمضان بالجماعة أفضل من أدائها في منزله وهو الصحيح، هكذا في السراج الوهاج."
(كتاب الصلاة،الباب التاسع في النوافل،فصل في التراويح،116/1، ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506102790
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن