بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ویزہ کے حصول کے لیے جعلی بینک اسٹیٹمنٹ بنوانے اور ایجنٹ کو اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے کے عوض معاوضہ دینے کا حکم


سوال

سٹڈی ویزہ پر یو کےجانے کے  لیے (80-90 )لاکھ روپے بینک سٹیٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ ہر شخص کے پاس نہیں ہوتے، اس سٹیٹمنٹ کو بنانے کے  لیے مختلف ایجنٹ ہوتے ہیں، جو اپنی رقم امیدوار کے اکاؤنٹ میں رکھتے ہیں ایک مہینے کے  لیے؛  تاکہ اس کا اسٹیٹمنٹ بن جائے، بعد میں وہ اپنی رقم نکال لیتے ہیں ، اور امیدوار سے اس سروس کے چارجز بھی لیتے ہیں، تو اب سوال یہ کیا میں اس کو جو پیسے دوں گا وہ حرام اور سود میں آئیں گے؟

جواب

بینک یا ویزہ ایجنٹ سے اس طرح اسٹیٹمنٹ بنوانا کہ حقیقی طور پر آدمی جس رقم کا مالک نہیں اسے اسٹیٹمنٹ میں شو  کیاجائے،اس طرح جعلی اسٹیٹمنٹ بنوانا دھوکا  دہی  اور  جھوٹ پر مشتمل ہونے  کی وجہ سے ناجائز ہے ۔

نیز اگر ایجنٹ اسٹیٹمنٹ بنوانے  والے کے اکاؤنٹ میں ایک خاص مدت تک اپنی  رقم بطور ِ قرض    رکھے ،اور اس کا معاوضہ  وصول کرےتویہ صورت بھی ناجائز ہے،اس لیے کہ یہ قرض پر نفع لینا ہے اور قرض پر نفع  لینا سودکے حکم میں ہے،اور سود کا لین دین ناجائز اور حرام ہے   ۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

(الصحیح لمسلم،باب لعن آكل الربا ومؤكله،3/ 1219، ط:دار احیاء التراث العربي)

ترجمہ : ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُود کھانے والے(لینے والے) پر،سُود کھلانے والے(دینے والے) پر اس کے لکھنے والے پر،اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس(گناہ) میں وہ سب برابر ہیں۔“

مصنف ابن ابی شیبہ ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا حفص عن أشعث عن الحكم عن إبراهيم قال: ‌كل ‌قرض ‌جر منفعة فهو ربا."

(كتاب البيوع ،فصل فيمن كره كل قرض جر نفعا،11/ 425،ط: دار الكنوز)

مشكاة المصابيح ميں ہے:

"وعن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من أعطي عطاء فوجد فليجز به ومن لم يجد فليثن فإن من أثنى فقد شكر ومن كتم فقد كفر ‌ومن ‌تحلى ‌بما ‌لم ‌يعط كان كلابس ثوبي زو. رواه الترمذي وأبو داود."

(كتاب البيوع، باب العطايا،الفصل الثاني،2/ 910 ،المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: کلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي: إذا کان مشروطًا کما علم مما نقله عن البحر."

( باب المرابحة والتولیة،فصل في القرض،مطلب کل قرض جر نفعًا حرام،5/166، ط:سعید)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"ذكر محمد رحمه الله في كتاب الصرف عن أبي حنيفة رضي الله عنه: أنه كان يكره كل قرض فيه جر منفعة، قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد".

(الفصل التاسع والعشرون في القرض وما يكره من ذلك، وما لا يكره،5 /394، ط:دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں