بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت میں جو زیور بچوں کو ملا ہے اس کی زکوۃ کا حکم


سوال

 ماں کی وراثت میں جو زیور دو بچوں کو ملا ہے دسمبر ۲۰۲۲ میں تواب اس کی زکوۃ دینی ہوگی؟اور کتنے زیور ہونے چاہیے زکوۃ  کے لیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں والدہ کی میراث میں سے جو  زیور  جس بچے کو ملا ہے   اگر اس کے پاس صرف  یہی زیور ہے اور  اس کے علاوہ کوئی نقد، چاندی یا مالِ تجارت نہ ہو تو  زکوٰۃ  لازم ہونے  کے لیے  دیگر  شرائط  کے  ساتھ  اس  زیور  کا  ساڑھے  سات تولہ  ہونا ضروری ہے،  اور  اگر زیور ساڑھے سات تولے سے کم ہے، لیکن اس  کے  ساتھ نقدی،چاندی یا مالِ تجارت میں سے بھی کچھ ملکیت میں ہو تو  ساڑھے سات تولہ  سونے کا اعتبار نہیں،  بلکہ اگر ان مملوکہ اشیاء کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو    قمری مہینوں کے اعتبار سے  سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ  ادا کرنا لازم ہوگا۔

واضح رہے کہ بالغ بچوں کے مال پر زکوۃ واجب ہوتی ہے، نابالغ بچوں کے مال پر زکوۃ  واجب نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"هذا إذا كان له فضة مفردة، فأما إذا كان له ذهب مفرد فلا شيء فيه حتى يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال؛ لما روي في حديث عمرو بن حزم «والذهب ما لم يبلغ قيمته مائتي درهم فلا صدقة فيه فإذا بلغ قيمته مائتي درهم ففيه ربع العشر» وكان الدينار على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مقوما بعشرة دراهم.

وروي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال لعلي: «ليس عليك في الذهب زكاة ما لم يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال» وسواء كان الذهب لواحد أو كان مشتركا بين اثنين أنه لا شيء على أحدهما ما لم يبلغ نصيب كل واحد منهما نصابا عندنا، خلافا للشافعي."

(کتاب الزکاۃ , فصل مقدار الواجب فی زکاۃ الذهب جلد 2 ص: 18 ط: دارالکتب العلمیة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك، ولو كان من غير جنسه من كل وجه كالغنم مع الإبل فإنه لا يضم هكذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب الزکاۃ , الباب الاول فی تفسیر الزکاۃ و صفتها و شرائطها جلد 1 ص: 175 ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں