بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیوز لائک کرنے کی اجرت کا حکم


سوال

 ایک آن لائن کاروبار کے بارے میں پوچھنا تھا،  جس میں لوگ اپنی اشتہار بازی کے لیے پیسے دے کر انٹرنیٹ پر اپنی ویڈیوز لائک کرواتے ہیں، وہ جس کمپنی کو اس کام کے لیے ہائر کرتے ہیں وہ کمپنی ہمیں دس ہزار انویسٹ کرنے کو کہتی ہے، جو بظاہر ہمارے اکاؤنٹ میں ہی ہوتے ہیں، لیکن ہم اس رقم کو استعمال نہیں کر سکتے، اس پر وہ ہمیں روز دس ویڈیوز بھیجتے ہیں، جس کو لائک کرنے سے ہم روز تین سو کماتے ہیں اور پندرہ سو روپے کی ماہانہ تنخوا الگ ملتی ہے اور جو دس ہزار ہم نےشروع میں انویسٹ کیے تھے وہ صرف کمپنی سے استعفی دینے پر استعمال کر سکتے ہیں، ورنہ بس اوپر کی جو آمدنی ویڈیوز لائک کرنے سے آتی ہے صرف وہی استعمال کرتے ہیں، جو لوگ زیادہ پیسے انویسٹ کرتے ہیں ان کو ویڈیوز لائک کرنے پر آمدنی بھی زیادہ ملتی ہے ، اور اگر ہم اس (ویڈیوز لائک کرنے کے) کام پر دوسرے لوگوں کو بھی لگائیں تو اس سے ہماری آمدنی میں مزید اضافہ ہوتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ آمدنی حلال ہے یا حرام؟

جواب

واضح رہے کہ جاندار کی تصویر کشی کرنا یا جاندار کی تصویر پر مشتمل ویڈیو بناناناجائز اور حرام ہے، اور جس طرح جاندار کی تصویر کشی کرنا یا جاندار کی تصویر پر مشتمل ویڈیو بنانا حرام ہے اسی طرح اس میں کسی بھی قسم کی معاونت کرنا، اس کو پھیلانا اور اس کی تشہیر کرنا بھی حرام ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ویڈیوز لائک کرنا یا دوسرے لوگوں کو ویڈیوز لائک کرنے کے کام پر لگانا ناجائز اور حرام ہے اور اس کام سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ بھی ناجائز اور حرام ہے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

" وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1 /647، ط: سعيد)

وفیہ ایضًا:

"وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا؛ لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى كما مر."

(كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1 /650، ط: سعيد)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله تعالٰى:(وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ) يأمر تعالٰى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى وينهاهم عن التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم، قال ابن جرير : الإثم ترك ما أمر الله بفعله والعدوان مجاوزة ما حد الله لكم في دينكم ومجاوزة ما فرض الله عليكم في أنفسكم وفي غيركم....قلت: وله شاهد في الصحيح «من دعا إلى هدي كان له من الأجر مثل أجور من اتبعه إلى يوم القيامة لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا، ومن دعا إلى ضلالة كان عليه من الإثم مثل آثام من اتبعه إلى يوم القيامة لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا."

(سورة المائدة، الآية: 2، 10،11/3، ط: دارالكتب العلمية) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101513

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں