بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیوز لائک کر کے اور چینل سبسکرائب کر کے کمائی کرنے کا حکم


سوال

میں ایک کام شروع کر رہا ہوں جس میں پہلے 4000 کی  انویسٹمنٹ  کرنی ہوتی  ہے، اور وہ روزانہ چار چینل سبسکرائب اور لائک کرنے کے لیے دیتے ہیں، اور وہ روزانہ اس کے 160 روپے دیتے ہیں، اور یہ ویڈیوز جاندار چیزوں  پر شامل نہیں ہوتیں، اور اس میں کوئی فحش چیز بھی نہیں ہوتی،  بلکہ کھانے وغیرہ  کی ویڈیوز ہوتی ہیں، اور وہ  انویسٹمنٹ بھی 4 ماہ بعد واپس کر دیتے ہیں، کیا یہ کام جائز ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کام  کے ذریعے   کمائی کرنا درج ذیل وجوہات کی بناء پر جائز نہیں  ہے :

1- ویڈیوز کو لائک کرنا فی نفسہ کوئی مفید عمل نہیں جس پر اجارہ کو درست کہا جاسکے ۔

2- اس میں ویڈیوز کے مصنوعی دیکھنے والے (viewers) بنائے جاتے ہیں، جس سے ویڈیوز کو اشتہارات دینے والوں کی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا ہے اور بائع (بیچنے والے) کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھایا جاتا ہے جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ   ایک قسم کا دھوکہ  ہے۔

3-  مذکورہ طریقہ کار میں بسا اوقات   غیرارادی طور پر ویڈیوز  جان دار کی تصاویر پر مشتمل ہوتی  ہیں، اور جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو، بلا ضرورت  اس کا دیکھنا جائز نہیں ہے، لہٰذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔

4- ان ویڈیوز  میں  نامحرموں  کی تصاویر بھی ہوسکتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے بھی  مستقل گناہ ہے۔

5- اس طرح کی ویڈیوزکو لائک کرنا اس  کی تشہیر  کرنے کا ذریعہ ہے، اور گناہ کے کام میں معاونت خود ایک گناہ ہے۔

6-   نیز ان ویب سائٹس میں تشہیر کے لیے جو   طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ  پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے، جب کہ  اس نے  اس نئےاکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا، تو اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔

لہٰذا   اس طرح کی ویب سائٹس  میں رجسٹرڈ ہونا یا ان کے ذریعہ پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية.

وقال عليه في الرد: (قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية."

(كتاب الإجارة، ٤/٦، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام ... (ولا يستحق المشترك الأجر ‌حتى يعمل كالقصار ونحوه) كفتال وحمال ودلال وملاح."

(كتاب الإجارة، ‌‌باب الإجارة الفاسدة، مطلب في أجرة الدلال، ٦ /٦٣ - ٦٤. ط: سعيد)

وفيه أىضاً:

"والأجرة إنما تكون في ‌مقابلة ‌العمل."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣/ ١٥٦، ط: سعيد)

مجمع الأنہر میں ہے:

"لا يجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي)؛ لأن ‌المعصية ‌لا ‌يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة.  ٢ / ٣٨٤. ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

‌"وظاهر ‌كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم و إناء."

(كتاب الصلاة ،مطلب في مكروهات الصلاة،١/ ٦٤٧، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌والأجرة ‌إنما ‌تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل."

(باب المہر،ج:3،ص:156،سعید)

البحر الرائق میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: ‌تصوير ‌صور ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144504102044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں