ایک ایپ ہے LAM اور اس میں آن لائن کاروبار ہوتا ہے ہی کہ آپ سے 4000 ہزار لیتے ہیں، اور یہ آپ کو پیکج لگانے کے لیے لیتے ہیں،اس کے بعد کام یہ ہے کہ آپ کو ان کی ایک ویڈیو پر لائک کرکے اور کمینٹ کرکے اس کا سکرین شاٹ ان کو سینڈ کر دینا ہے، اس کے آپ کو ہر روز چار ویڈیوز کے 160روپے ملتے ہیں اور ان کی ویڈیوز میں کھانے کی اشیإء ہوتی ہیں، پھل فروٹ وغیرہ تو اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ روزانہ لائک اور کمنٹ کرنے کے لیے جو ٹاسک ملتا ہے اور اس پر کلک کرنے پر بطور معاوضہ پیسہ دیا جاتا ہے،یہ فی نفسہ کوئی ایسا مفید عمل نہیں ہے جس پر اجارہ کو درست کہا جا سکے،نیز دوسری خرابی یہ ہے کہ عموماً ایسی ویڈیوز جاندار کی یا نامحرم کی تصویر پر مشتمل ہوتی ہیں جن کودیکھ کر اس کو لائک کیا جاتا ہے ،اور جان دار اشیاء اور غیر محرم کی تصاویر دیکھنا اور اس کو لائک کرنا شرعاً جائز ہی نہیں ہے چہ جائیکہ اس عمل کوآمدن کاذریعہ بنایا جائے ؛ لہذا صورت ِ مسئولہ اگر واقعتاً مذکورہ ایپ کی ویڈیوز میں پھل فروٹ وغیرہ ہوتے ہوں اور کسی قسم کے جاندار یا نامحرم کی تصویر نہ بھی ہو ،پھر بھی پہلی خرابی کے باعث مذکورہ طریقہ سے اپنے سرمایہ پر نفع یا اجرت حاصل کرنا ، ناجائز ہے ۔
مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں
ویڈیوز لائک کرنا اور کمنٹ کرکے پیسہ کمانے کا حکم
فتاویٰ شامی میں ہے :
"والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل".
(باب المہر،ج:3،ص:156،سعید)
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :
"الإجارۃ علی المنافع المحرمة کالزنی والنوح والغناء والملاهی محرمۃ وعقدها باطل لا یستحق به أجرۃ۔ ولا یجوز إستئجار کاتب لیکتب له غنائً ونوحًا ، لأنه إنتفاع بمحرم۔ وقال أبو حنیفۃ : یجوز ، ولا یجوز الإستئجار علی حمل الخمر لمن یشربها ، ولا علی حمل الخنزیر."
(کتاب الإجارۃ، الإجارۃ علی المعاصی ،ج:1، ص:290، ط:دارالسلاسل)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144504101113
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن