بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیو گرافی کے ذریعہ ٹیوشن پڑھانا


سوال

ہم چند ماہر ٹیچر حضرات زوم ایپ یا کسی دوسری ایپلیکیشن پرآن لائن کلاس پڑھانا شروع کر رہے ہیں ، جس میں ویڈیو گرافی ہوگی ، وہ ویڈیو محفوظ کرلی جاتی ہے، تاکہ طلبہ لیکچر دوبارہ سن سکیں، اس آن لائن کلاس میں تختہ سیاہ کے ساتھ ٹیچر بھی نظر آئے گا، پڑھانے والے مرد حضرات ہیں اور پڑھنے والے بھی لڑکے ہی ہیں، یہ آن لائن کلاس بہت ہی کم فیس میں شروع کی جارہی ہے؛ تاکہ پورے ملک میں کسی بھی خطہ کا غریب سے غریب طالب علم اس کلاس سے ٹیوشن پڑھ کر عصری اعلی تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر ،انجینئر اور افسر بن سکے، اس کلاس کے شروع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم طلبہ عصری تعلیم میں عبور حاصل کر سکیں ، ہر جگہ بہتر ٹیوشن کلاس یا کوچنگ سینٹر نہیں ہوتا ہے، اگر کہیں  ہوتا بھی ہے تو فیس بہت زیادہ ہوتی ہے، جس کو طلبہ برداشت نہیں کر سکتے ؛ لہذا آپ سے سوال ہے کہ اس طرح ویڈیوگرافی کےذریعہ طلبہ کو آن لائن ٹیوشن پڑھانا جائز ہے؟ اس کی آمدنی کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  شریعت مطہرہ میں کسی  بھی  جان دار  چیز کی تصویر کشی   کرنا حرام ہے ، خواہ وہ  تصویر کشی کسی ڈیجیٹل کیمرے کے ذریعہ سے ہو یا غیر ڈیجیٹل کیمرے سے ، بہر صورت ناجائز اور حرام ہے، زوم ایپ کا استعمال بھی شرعاً تصویر کشی کے حکم میں ہے؛اس لیے آن لائن  تعلیم وتد ریس کےلیے  یہ بنیادی شرط ہے کہ تعلیم  محض صوتی یعنی صرف آواز ( آڈیو کال )  کے ذریعہ ہو ،ایک  دوسرے کی تصویر  نظر نہ آئے یعنی تعلیم کیمرے(ویڈیوکال ،لائیو ویڈیووغیرہ )کے ذریعہ  نہ  ہو ،اگر دوران تدریس  کیمرے کا استعمال ہو تو  کیمرے کا رخ ( فوکس )غیرجاندار  چیز ( بورڈ ، کتاب وغیرہ )   پر ہو ،کیمرے کے سامنے  استاد یا طالب علم/طلبہ کا آنا جائز نہیں ہے ۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں ویڈیو گرافی کے ذریعہ  مذ کورہ طریقہ کے مطابق طلبہ کو آن لائن ٹیوشن پڑھانا شرعاً ناجائز ہے ،اور اس کی آمدنی حلال طیب نہیں ہے ۔

البحر الرائق میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: ‌تصوير ‌صور ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :

"الإجارۃ علی المنافع المحرمۃ کالزنی والنوح والغناء والملاہی محرمۃ وعقدہا باطل لا یستحق بہٖ أجرۃ۔ ولا یجوز استئجار کاتب لیکتب لہٗ غنائً ونوحًا ، لأنہٗ انتفاع بمحرم۔ وقال أبو حنیفۃ : یجوز ، ولا یجوز الاستئجار علی حمل الخمر لمن یشربہا ، ولا علی حمل الخنزیر."

(کتاب الاجارۃ،الاجارۃ علی المعاصی ،ج:1،ص:290،دارالسلاسل)

بدائع الصنائع میں ہے :

" فأما صورة ما لا حياة له كالشجر ونحو ذلك فلايوجب الكراهة؛ لأن عبدة الصور لايعبدون تمثال ما ليس بذي روح، فلا يحصل التشبه بهم، وكذا النهي إنما جاء عن تصوير ذي الروح لما روي عن علي - رضي الله عنه - أنه قال: من صور تمثال ذي الروح كلف يوم القيامة أن ينفخ فيه الروح، وليس بنافخ.........الخ

(کتاب الصلاۃ،فصل شرائط ارکان الصلاۃ،ج:1،ص:116،دارالكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406101866

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں