بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیو کلپس کے ذریعے اصلاحی بیانات کرنے کا حکم


سوال

ویڈیو کلپس کے ذریعے دینی مسائل امت تک پہنچانا، اُن کے عقائد کی اصلاح کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث لوگوں تک پہنچانا یاتقریر وغیرہ ویڈیو کی صورت میں کرنا جب کہ ویڈیو میں مقرر کی تصویر بھی نظر آتی ہو، کیا یہ سب جائز ہے یا نہیں؟جب کہ یہ بیانات  ویڈیو کی صورت میں  خواتین بھی دیکھتی ہیں، مقرر جو خود ویڈیو بنواتا ہے کیا وہ اس کی وجہ سے گناہ گار ہوگا یا نہیں؟  

اگر تصویر کے بغیر صرف آواز کے ذریعے یعنی آڈیو بیانات کے ذریعے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کی کوشش کی جائے تو عوام اتنی زیادہ توجہ آڈیو پر نہیں دیتی، کیا ایسی صورتِ حال میں ویڈیو بیانات جائز ہوں گے یا نہیں؟

ایک مشہور  عالمِ دین کی ویڈیو تقریر ہم نے سُنی ہے، اُنہوں نے اپنی شہادت سے کئی سال قبل عوام سے فرمایا تھا کہ انڈیا کے گانے وغیرہ کی جگہ علماء کی ویڈیودیکھو اور علماء کی تقاریر سنو، میں یہ سوال اس لیے بھیج رہا ہوں کہ میرے ایک قریبی عزیز نوجوان عالم مجھے کہتے ہیں کہ ہم ویڈیو  کلپس کے ذریعے آپ کی تقاریر عام کرنا چاہتے ہیں، لیکن میں اُن کو یہ جواب دیتا ہوں کہ ویڈیو تصویر پر مشتمل ہوتی ہے، اس لیے ویڈیوبنانا گناہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ تصویر تو ساکت اور خاموش ہوتی ہے اور ویڈیو میں جو شے نظر آتی ہے وہ متحرک ہوتی ہے، لہٰذا وہ تصویر نہیں ہے، بلکہ عکس ہے؟

اب میں نے فیصلہ آپ جیسے علماء کرام پر چھوڑا ہے، آپ جو راہ نمائی فرمائیں گے، میں شدت کے ساتھ اُس کا منتظر رہوں گا۔

جواب

واضح رہے  کہ جاندار کی تصویر کشی یا جاندار کی تصویر پر مشتمل ویڈیو سازی ناجائز اور حرام ہے، ڈیجیٹل کیمرہ کے ذریعے جو تصویر لی جاتی ہے یا ویڈیو بنائی جاتی ہے وہ بھی ناجائز اور حرام ہے، اُسے عکس یا کوئی اور نام دے کر جائز قرار دینا درست نہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے اپنے بیانات کی ویڈیو کلپس بنوانا ناجائز اور حرام ہے، نیز جاندار کی تصویر پر مشتمل ویڈیو بنانا جس طرح حرام ہے اسی طرح اُس ویڈیو کو دیکھنا بھی حرام ہے، خواہ وہ ویڈیو کسی دینی بیان پر مشتمل ہو یا کسی دوسرے مواد پر، اور اس ویڈیو کے بنانے والے، بنوانے والے ، دیکھنے والے اور اس میں معاونت کرنے والے سب گناہ گار ہوں گے، لہٰذا اس سے مکمل پرہیز کرنا لازم ہے۔

باقی یہ کہنا کہ فلاں عالم نے یہ کہا ہے یا فلاں عالم تو اس طرح کرتے ہیں یا یہ کہنا کہ آڈیو بیان کی طرف لوگ زیادہ توجہ نہیں دیتےاس قسم کی باتیں ویڈیو بیان کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی ہیں۔

فقہ السیرۃ للشیخ محمد سعید رمضان البوطی میں ہے:

"قلت: ويستشكل الناس حكم الصور الفوتوغرافية اليوم: هل هي في حكم الرسوم والصور التي ترسم وتخطط بمهارة اليد، أم لها حكم آخر؟

وقد فهم بعضهم من علة التصوير التي ذكرها النووي فيما نقلناه من كلامه أن التصوير الفوتوغرافي ليس في حكم الرسم باليد، إذ العمل الفوتوغرافي لا يقوم على أي مهارة في الصنعة أو اليد، بحيث تتجلى فيها محاولة المضاهاة بخلق الله تعالى، إذ هو يقوم على تحريك بسيط لناحية معينة في جهاز التصوير، يتسبب عنه انحباس الظل في داخله بواسطة أحماض معينة؛ وهي حركة بسيطة يستطيع أن يقوم بها أي طفل صغير والحق أنه لا ينبغي تكلف أي فرق بين أنواع التصوير المختلفة حيطة في الأمر، ونظرا لإطلاق لفظ الحديث. نقول هذا على سبيل التورع والحيطة، أما الخوض في حقيقة حكمه الشرعي فيحتاج إلى بحث ودراسة مفصلة.

هذا فيما يتعلق بالتصوير ‌أما ‌الاتخاذ ‌فلا ‌فرق بين الفوتوغرافي وغيره، فيما يبدو. والله أعلم."

(القسم السادس: الفتح ...، فتح مكة، سادسًاـــ-تأملات في ما قام به النبي صلى الله عليه وسلم، ص: 281، ط: دار الفكر)

تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"ولكن كثيرا من علماء البلاد العربية، وجلهم أو كلهم في البلاد الهندية قد أفتوا بأنه لافرق بين الصورة المرسومة والصورة الشمسية في الحكم.

(باب تحريم تصوير صورة الحيوان، حكم الصورة الشمسية، 97/4، ط: دار القلم)

وفیہ ایضًا:

"قال الشيخ مصطفى الحمامي في كتاب "النهضة الإصلاحية": وإني أحب أن تجزم الجزم كله أن التصوير بآلة التصوير (الفتوغرافية) كالتصوير باليد تماما، فيحرم على المؤمن تسليطها للتصوير.... إلخ."

(باب تحريم تصوير صورة الحيوان، حكم الصورة الشمسية، 97/4، ط: دار القلم)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"‌‌ القول الثالث:

أنه يحرم تصوير ذوات الأرواح مطلقا، أي سواء أكان للصورة ظل أو لم يكن. وهو مذهب الحنفية والشافعية والحنابلة."

(حرف التاء، تصوير، 102/12، ط: دار السلاسل)

 

آپ کے مسائل اور اُن کا حل میں ہے:

"ٹی وی اور ویڈیو پر اچھی تقریریں سننا

س… ہم کو اس قدر شوق ہوا کہ ہم جہاں بھی کوئی اچھا بیان ہوتا ہے وہاں پہنچ جاتے ہیں، اور یہاں تک ویڈیو کیسٹ پر بھی کسی عالم کا بیان اچھا ہوتا ہے تو بیٹھ کر سنتے ہیں اور خاص کر جمعہ کو ٹی وی پر جو پروگرام آتا ہے، اس کو بھی سنتے ہیں، لیکن ہم کو کسی نے کہا کہ یہ جائز نہیں، لہٰذا میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ بتائیں یہ جائز ہے یا ناجائز؟

ج… ہماری شریعت میں جاندار کی تصویر حرام ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر لعنت فرمائی ہے، ٹیلی ویژن اور ویڈیو فلموں میں تصویر ہوتی ہے، جس چیز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حرام اور ملعون فرما رہے ہوں، اس کے جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان چیزوں کو اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، یہ خیال بالکل لغو ہے۔ اگر کوئی اُمّ الخبائث (شراب) کے بارے میں کہے کہ اس کو نیک مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے تو قطعاً لغو بات ہوگی۔ ہمارے دور میں ٹی وی اور ویڈیو “اُمّ الخبائث” کا درجہ رکھتے ہیں اور یہ سیکڑوں خبائث کا سرچشمہ ہیں۔"

(ٹی وی اور ویڈیو پر اچھی تقریریں سننا، 434/8، ط: مکتبہ لدھیانوی)

وفیہ ایضًا:

"ٹی وی اور ویڈیو فلم

س… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ شرعِ متین و علمائے دِین اس بارے میں کہ ٹی وی اور ویڈیو کیسٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آیا یہ تصویر کی حیثیت سے ممنوع ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں مندرجہ ذیل اپنی گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

  ۱:… اگر ٹی وی براہِ راست ریز (شعاعوں) کے ذریعہ جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ اسی آن میں ہمیں دِکھارہی ہو، جیسے کبھی کبھی حج پروگرام نشر ہوتے ہیں، جو کچھ وہاں حجاجِ کرام کرتے ہیں وہ ہم اسی آن میں یہاں دیکھتے ہیں، کیا اس وقت ٹی وی دُوربین جیسی نہیں ہوتی؟ اور کیا کسی آلے سے اگر دُور کی آواز سننا جائز ہے تو کیا دُور کا دیکھنا جائز نہیں؟

       ۲:… فلم میں ایک خرابی یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں تصویر ہے، اور تصویر حرام ہے۔ مگر ویڈیو کیسٹ کی حقیقت یہ ہے کہ ویڈیو کیسٹ میں کسی طرح کی تصویر نہیں چھپتی، بلکہ اس کے ذریعے اس کے سامنے والی چیزوں کی ریز (Rays) شعاعوں کو ٹیپ کرلیا جاتا ہے، جس طرح آواز کو ٹیپ کرلیا جاتا ہے، ٹیپ ہونے کے باوجود جس طرح آواز کی کوئی صورت نہیں ہوتی، بلکہ وہ غیرمرئی ہوتی ہے، اسی طرح ان ریز شعاعوں کی بھی کوئی صورت نہیں ہوتی، لہٰذا فلمی فیتوں اور ویڈیو کیسٹ میں بڑا فرق ہے، فلمی فیتوں میں تو تصویر باقاعدہ نظر آتی ہے، جس تصویر کو پردے پر بڑھاکر دِکھایا جاتا ہے مگر ویڈیو کیسٹ “مقناطیسی” ہوتے ہیں جو مذکورہ ریز کرنوں کو جذب کرلیتے ہیں، پھر ان جذب شدہ کو ٹی وی سے متعلق کیا جاتا ہے، تو ٹی وی ان ریز کو تصویر کی صورت میں بدل کر اپنے آئینے میں ظاہر کردیتی ہے، چونکہ یہ صورت متحرک اور غیرقار ہوتی ہے اسے عام آئینوں کی صورت پر قیاس کیا جاتا ہے، جب تک آئینے کے رُوبرو ہو اس میں صورت رہے گی، اور ہٹ جانے کی صورت میں ختم ہوجائے گی، یوں ہی جب تک ویڈیو کیسٹ کا رابطہ ٹی وی سے رہے گا تصویر نظر آئے گی، اور رابطہ منقطع ہوتے ہی تصویر فنا ہوجائے گی۔

       ۳:… آئینے اور ٹی وی کے ناپائیدار عکوس کو حقیقی معنوں میں تصویر، تمثال، مجسمہ، اسٹیچو وغیرہ کہنا صحیح نہیں، اس لئے کہ پائیدار ہونے سے پہلے عکس ہی ہوتا ہے، تصویر نہیں بنتا، اور جب اسے کسی طرح سے پائیدار کرلیا جائے تو وہی تصویر بن جاتا ہے، اب اگر اس کو ناظرین تصویر کہیں تو یہ مجازاً ہوگا۔

       ۴:… اور یہ کہ جب علماء نے بالاتفاق بہت چھوٹی تصویر جیسے بٹن یا انگوٹھی کے نگینے پر تصویر کے استعمال کو جائز کہا ہے، مگر یہاں تو ویڈیو میں بالکل تصویر کا وجود ہی نہیں، اور کسی طاقتور خوردبین سے بھی نظر نہیں آتا۔

          ۵:… اُوپر والی باتوں پر نظر رکھتے ہوئے میرے خیال میں ٹی وی بذاتِ خود خراب یا مذموم نہیں، ہاں! موجودہ پروگراموں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ٹی وی کو مذموم کہا جاسکتا ہے، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آدمی ٹی وی نہ رکھے، بلکہ مذموم پروگرام کو نہ دیکھے، جیسے ریڈیو۔

۶:… یہ بات زیرِ غور ہے کہ اگر پاکستان کا مقدر اچھا بن جائے اور یہاں مکمل اسلامی حکومت قائم ہوجائے تو کیا ٹی وی اور ٹی وی اسٹیشن ختم کئے جائیں گے؟

    ۷:… یہ کہ یہاں پر ہم سے یہ کہا جاتا ہے کہ مفتی محمود کبھی کبھی ٹی وی پر اپنی تقریر سناتے تھے، کیا ان کا عمل یہ نہیں بتا رہا ہے کہ وہ فی ذاتہ ٹی وی کو مذموم نہ سمجھتے تھے؟

    ۸:… یہ کہ علمائے حجاز و مصر کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

۹:… ہم سے سائنس کے طلباء کہہ رہے ہیں کہ جو ہم میں سے ٹی وی دیکھ رہا ہے، وہ علمی سائنس میں ہم سے آگے ہے، کیونکہ ٹی وی میں جدید پروگرام دیکھتے ہیں، کیا ہمیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں؟

          اور آخر میں یہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میری یہ ساری بحث ٹی وی کو خواہ مخواہ جائز رکھنے کے لئے نہیں، بلکہ اس جدید مسئلے کے سارے پہلو آپ کے سامنے رکھنا مقصود ہے، غلطی ہو تو معاف فرمائیں۔

ج… جو نکات آپ نے پیش فرمائے ہیں، اکثر و بیشتر پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں، ٹی وی اور ویڈیو فلم کا کیمرہ جو تصویریں لیتا ہے وہ اگرچہ غیرمرئی ہیں، لیکن تصویر بہرحال محفوظ ہے، اور اس کو ٹی وی پر دیکھا اور دِکھایا جاتا ہے، اس کو تصویر کے حکم سے خارج نہیں کیا جاسکتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ سے تصویر بنانے کے فرسودہ نظام کی بجائے سائنسی ترقی میں تصویرسازی کا ایک دقیق طریقہ ایجاد کرلیا گیا ہے، لیکن جب شارع نے تصویر کو حرام قرار دیا ہے تو تصویرسازی کا طریقہ خواہ کیسا ہی ایجاد کرلیا جائے تصویر تو حرام ہی رہے گی۔ اور میرے ناقص خیال میں ہاتھ سے تصویرسازی میں وہ قباحتیں نہیں تھیں جو ویڈیو فلم اور ٹی وی نے پیدا کردی ہیں۔ ٹی وی اور ویڈیو کیسٹ کے ذریعہ گھر گھر سینما گھر بن گئے ہیں۔ کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شارع ہاتھ کی تصویروں کو تو حرام قرار دے، اس کے بنانے والوں کو ملعون اور “أشدُّ عذابًا یوم القیامة” بتائے اور فواحش و بے حیائی کے اس طوفان کو جسے عرفِ عام میں “ٹی وی” کہا جاتا ہے، حلال اور جائز قرار دے․․․؟

          رہا یہ کہ اس میں کچھ فوائد بھی ہیں، تو کیا خمر اور خنزیر، سود اور جوئے میں فوائد نہیں؟ لیکن قرآنِ کریم نے ان تمام فوائد پر یہ کہہ کر لکیر پھیر دی ہے: “وَاِثْمُھُمَا أَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا”۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویڈیو فلم اور ٹی وی سے تبلیغِ اسلام کا کام لیا جاتا ہے، ہمارے یہاں ٹی وی پر دِینی پروگرام بھی آتے ہیں، لیکن کیا میں بڑے ادب سے پوچھ سکتا ہوں کہ ان دِینی پروگراموں کو دیکھ کر کتنے غیرمسلم دائرہٴ اسلام میں داخل ہوگئے؟ کتنے بے نمازیوں نے نماز شروع کردی؟ کتنے گناہگاروں نے گناہوں سے توبہ کرلی؟ لہٰذا یہ محض دھوکا ہے۔ فواحش کا یہ آلہ جو سرتاسر نجس العین ہے اور ملعون ہے، اور جس کے بنانے والے دُنیا و آخرت میں ملعون ہیں، وہ تبلیغِ اسلام میں کیا کام دے گا؟ بلکہ ٹی وی کے یہ دِینی پروگرام گمراہی پھیلانے کا ایک مستقل ذریعہ ہیں، شیعہ، مرزائی، ملحد، کمیونسٹ اور ناپختہ علم لوگ ان دِینی پروگراموں کے لئے ٹی وی پر جاتے ہیں اور اناپ شناپ جو ان کے منہ میں آتا ہے کہتے ہیں، کوئی ان پر پابندی لگانے والا نہیں، اور کوئی صحیح و غلط کے درمیان تمیز کرنے والا نہیں، اب فرمایا جائے کہ یہ اسلام کی تبلیغ و اِشاعت ہو رہی ہے یا اسلام کے حسین چہرے کو مسخ کیا جارہا ہے․․․؟

رہا یہ سوال کہ فلاں یہ کہتے ہیں اور یہ کرتے ہیں، یہ ہمارے لئے جواز کی دلیل نہیں۔

(ٹی وی اور ویڈیو فلم، 440/8، ط: مکتبہ لدھیانوی)

وفیہ ایضًا:

"ویڈیو فلم کو چھری، چاقو پر قیاس کرنا دُرست نہیں

س… اس ماہِ رمضان میں اِعتکاف کے لئے ایک خانقاہ گیا، اس خانقاہ کے جو پیر صاحب ہیں، ان کے طریقِ کار پر میں کافی عرصے سے ذکر کرتا رہا ہوں۔ اس دفعہ جب میں بیعت ہونے کے ارادے سے ان کے پاس گیا تو وہاں عجیب منظر دیکھنے میں آیا، پیر صاحب ظہر اور عصر کے درمیان ایک گھنٹے تک درسِ قرآن دیتے تھے، جس کی ویڈیو فلم بنتی تھی، جب میں نے یہ چیز دیکھی تو میں نے بیعت کا ارادہ بدل دیا۔ یہاں اپنے مقام پر واپس آکر ان کے پاس خط لکھا، جس میں ان کے پاس لکھا کہ علمائے کرام تو ویڈیو فلم کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے جواب میں تحریر فرمایا کہ: “ویڈیو فلم ہو یا کلاشنکوف یا چھری، چاقو ہو، جائز کام کے لئے ان چیزوں کا استعمال بھی جائز، اور ناجائز کاموں کے لئے ان کا استعمال بھی ناجائز۔” اب آپ فرمائیں کہ علمائے دِین اور مفتیان صاحبان اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ کیا دِین کی تبلیغ کے لئے ویڈیو فلم کا استعمال جائز ہے؟ اور اگر نہیں تو تحریر فرمائیں تاکہ میرے پاس اس کے بارے میں کوئی مثبت جواب ہو، ان کا جواب بھی آپ کے پاس بھیج رہا ہوں۔

ج… ویڈیو فلم پر تصویریں لی جاتی ہیں اور تصویر جاندار کی حرام ہے، اور شریعتِ اسلام میں حرام کام کی اجازت نہیں۔ اس لئے اس کو چھری، چاقو پر قیاس کرنا غلط ہے، اور ان پیر صاحب کا اِجتہاد ناروا ہے۔ آپ نے اچھا کیا کہ ایسے برخود غلط آدمی سے بیعت نہیں کی۔"

(ویڈیو فلم کو چھری، چاقو پر قیاس کرنا دُرست نہیں، 435/8، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فتاوٰی شامی میں ہے:

" وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1 /647، ط: سعيد)

وفیہ ایضًا:

"وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا؛ لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى كما مر."

(كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 650/1، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں