بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیو بنانے اور ویڈیو کال کا حکم


سوال

یہ بات تو واضح ہے کہ تصویر بنانا جائز نہیں ہے،  لیکن کیا ویڈیو بنانا بھی جائز نہیں؟حالانکہ تصویر اور ویڈیو میں کافی فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح وڈیو کال کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

جس طرح کسی جاندارکی تصویر بنانا جائزنہیں ہے،اسی طرح اس کی ویڈیو بنانا بھی جائز نہیں ہے اور گناہ کبیرہ ہے کیونکہ جس طرح تصویر محفوظ ہوتی ہے اسی طرح ویڈیو  بھی محفوظ ہوتی ہے بلکہ ویڈیو بھی دراصل تصاویر ہوتی ہیں ،فرق صرف یہ ہوتاہے کہ ایک  ہی سلسلہ کی ذرا ذرا سے فرق سے ساکن تصویریں ہوتی ہیں جنہیں ایک ساتھ تیزی کے ساتھ چلایا جاتا ہے تو وہ حرکت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔

ویڈیو کال  بھی تصویر ہی کے حکم میں ہے؛ اس میں بھی انتہائی  سرعت کے ساتھ تصویروں کو محفوظ کر کے آگے بھیجنے کا عمل  مستقل جاری رہتا ہے؛ اس لئے ویڈیو کال جس میں جاندار کی تصویر ہو ، شرعا ناجائز ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن نافع: أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (إن الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم."

 (صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين يوم القيامة، رقم:5607 ،2220/5، ط: دار ابن كثير)

حدیث شریف میں ہے:

"وعن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أشد الناس عذابا عند الله المصورون»."

 (مشکاۃ المصابیح: کتاب اللباس، باب التصاویر،رقم:4497, 1247/2، ط:المکتب الاسلامی)

البحر الرائق میں ہے:

"وظاهر ‌كلام ‌النووي ‌في ‌شرح ‌مسلم ‌الإجماع ‌على ‌تحريم ‌تصويره صورة الحيوان وأنه قال قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم

وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث."

(کتاب الصلاۃ،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،2/2,ط:دار الکتب الاسلامی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102485

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں