بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویزے کی خرید و فروخت کا شرعی حکم


سوال

میں دبئی  میں  ایک کمپنی  میں کام کرتا ہوں،ہماری کمپنی جب کبھی مزدوروں کی ضرورت پڑتی ہے تو اس کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:

کمپنی کے مطالبے سے پہلے ہی  دبئی میں کام کے خواہش مند پاکستانیوں کے پاسپورٹ منگوالیتا ہوں، جب کمپنی مزدوروں کا مطالبہ کرتی ہے ، یہ کوائف میں ایک ایجنٹ کے حوالے کرتا ہوں،یہ ایجنٹ ان کوائف  کو کمپنی کے دفتر میں مدیر کے حوالے کرتا ہے،مدیر ان کوائف پر موجود نام کی فہرست  کمپنی کے دفتر میں مدیر کے حوالے کرتا ہے،پھر مدیر اس فہرست کو کمپنی مالک کے سامنے پیش کرتا ہے،مالک اس فہرست پر دستخط کرکے منظوری دیتا ہے کہ یہ مزدور ہمیں مطلوب ہیں،اس طرح مالک کی طرف سے ویزے جاری ہوتے ہیں۔

اس کے بعد مدیر وہ ویزے ایجنٹ کے حوالے کرتا ہے،اور ہر ویزے پر  رقم وصول کرتا ہے،پھر ایجنٹ وہ ویزے میرے حوالے کرتا ہے،اور  مجھے اپنا نفع رکھ کر رقم وصول کرتا ہے،میں یہ مزید کچھ نفع کے ساتھ  مزدوروں کو دیتا ہوں۔

نیز ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ کمپنی کے مالک  کی طرف سے مدیر کو یہ ویزے بیچنے کی اجازت ہے کہ نہیں؟نہ ہی ہم معلوم کرسکتے ہیں! لہذا اجازت ہو یہ نہ ہو ، دونوں میرے لیے مزدوروں سے نفع لینے کا کیا حکم ہے؟اور ایجنٹ کی ہدایات کے مطابق میں بھی نفع لینے کا پابند ہوں،اگر میں نے نفع نہیں لیا تو وہ مجھے ویزے نہیں دے گا۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ میں کسی بھی چیز کی خرید و فروخت کے لیے  اس کا ٹھوس مادی حالت میں خارجی وجود (عین ہونا)ضروری ہے،چناں چہ  جس چیز میں بھی یہ شرط نہ پائی جاۓ، اس  کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے، لہذا ویزے میں بھی یہ شرط نہیں پائی جاتی، کیوں کہ ویزے کسی بھی ملک میں  جاکر رہنے کا محض ایک اجازت نامہ  ہے،(یعنی محض ایک حق ہے)یہ کسی قسم کا  مال نہیں ہے۔ چناں چہ صورتِ مسئولہ میں مدیر کا ایجنٹ کو ویزا فرخت کرنا اور  پھر سائل کا ایجنٹ سے خرید کر آگے بیچنا دونوں کے دونوں  ناجائز ہے، اور  شرعا ایسی آمدن حلال نہیں ہے،البتہ ویزہ لینے کے لیے   جو خرچہ ہوتا ہے وہ لینا جائز ہوگا۔

لیکن اگر  سائل   ویزا فر وخت کرنے کے بجاۓ  خواہشمند حضرات سے یہ معاہدہ کرلےکہ میں  آپ لوگوں کا ویزہ لگوادوں گا، اور ٹکٹ وغیرہ کرادوگا،اور اس میں محنت اور کوائف وغیرہ  جمع کرانے  کے بارے میں جو وقت لگتا ہے،اس کے عوض اتنی رقم لوں گا،پھر سارے کام انجام دینے کےبعد اتنی رقم  لینا جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن ‌الحقوق ‌المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف." 

(كتاب البيوع،مطلب في بيع الجامكية،518/4،ط:سعيد)

 "(قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: ‌الحقوق ‌المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها. أقول: وكذا لا تضمن بالإتلاف قال: في شرح الزيادات للسرخسي وإتلاف مجرد الحق لا يوجب الضمان؛ لأن الاعتياض عن مجرد الحق باطل إلا إذا فوت حقا مؤكدا."

(كتاب البيوع،مطلب:لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة،518/4،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"بعضهم قالوا الأجير المشترك من يستحق الأجر بالعمل لا بتسليم نفسه للعمل .... وبعضهم قالوا الأجير المشترك من يتقبل العمل من غير واحد .... وإنما يعرف استحقاق الأجر بالعمل على العبارة الأولى بإيقاع العقد على العمل كما لو استأجر خياطا ليخيط له هذا الثوب بدرهم أو استأجر قصارا ليقصر له هذا الثوب بدرهم."

(كتاب الإجارة،الباب الثامن والعشرون في بيان حكم الأجير الخاص والمشترك وهو مشتمل على فصلين،500/4، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410100469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں