بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

velo نسوار منہ میں رکھ کر ذکر کرنے کا حکم


سوال

1۔ حضرت عام نسوار جو ملتی ہے اس میں بدبوہوتی ہے، جب کہ آج کل مختلف نسوار ملتی ہے جس میں خوشبو ہوتی ہے، الگ الگ flavors ہوتے ہیں، جس میں ذائقہ تو منہ میں آتا ہے، لیکن بدبودار نہیں ہوتی ، جیسا کہ: velo ایک قسم ہے، تو اس کو منہ میں رکھتے وقت ذکر کرنا جائز ہے کہ نہیں؟

2۔ اس کا ذائقہ منہ سے جلدی نہیں جاتا، صاف کرنے کے باوجود بھی ذائقہ محسوس ہوتا ہے، ہم کوشش کرتے ہیں کہ ذائقہ ختم ہو جائے، لیکن بار بار دھونے سے اور کلی کرنے سے بھی نہیں جاتا، تو اس دوران نماز کا کیا حکم ہے؟ اگر وضو بھی کرلے مسواک سے، تو بھی جلد ذائقہ نہیں جاتا۔

جواب

1۔ واضح رہے کہ ذکر و اذکار کے آداب میں سے یہ ہے کہ منہ پاک و صاف ہو اور پورے خشوع و خضوع اور توجہ کے ساتھ ذکر کیا جائے، اور اس کے مکمل فوائد و ثمرات تب ہی مل سکتے ہیں جب آداب کا لحاظ کیا جائے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ نسوار میں اگرچہ بدبو نہ ہو، لیکن چوں کہ یہ خلافِ ادب و خلافِ اولی ہے، اس لیے ذکر کرنا جائز تو ہے، تاہم ناپسندیدہ ضرور ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ ذکر کے وقت منہ میں نسوار نہ لے۔

2۔ اگر منہ میں اس کا ذائقہ محسوس ہوتا ہو، تو اس حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہوگا۔

الأذكار للنووی میں ہے:

"(لا يذكر الله تعالى إلا في مكان طيب) وينبغي أيضا أن يكون ‌فمه ‌نظيفا، فإن كان فيه تغير أزاله بالسواك، وإن كان فيه نجاسة أزالها بالغسل بالماء، فلو ذكر ولم يغسلها فهو مكروه ولا يحرم."

(فصل في الأمر بالإخلاص، ص: 12، ط: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت)

تحفۃ الذاكرین بعدۃ الحصن الحصین میں ہے:

"(قوله وأن يكون ‌فمه ‌نظيفا وأن يزيل تغيره بالسواك) أقول وجه هذا أن الذكر عبادة باللسان فتنظيف الفم عند ذلك أدب حسن ولهذا جاءت السنة المتواترة بمشروعية السواك للصلاة والعلة في ذلك تنظيف المحل الذي يكون الذكر به في الصلاة وقد صح أنه صلى الله عليه وسلم لما سلم عليه بعض الصحابة تيمم من جدار الحائط ثم رد عليه وإذا كان هذا في مجرد رد السلام فكيف بذكر الله سبحانه فإنه أولى بذلك وأخرج أبو داود من حديث ابن عباس عنه صلى الله عليه وسلم كرهت أن أذكر الله إلا على طهر وصححه ابن خزيمة ."

(‌‌فصل في آداب الذكر، ص: 53، ط: دار القلم - بيروت)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"قال العلماء ويلحق بالثوم والبصل والكراث ‌كل ‌ماله ‌رائحة ‌كريهة من المأكولات وغيرها قال القاضي ويلحق به من أكل فجلا وكان يتجشى قال وقال بن المرابط ويلحق به من به بخر في فيه أو به جرح له رائحة."

(كتاب المساجد، باب نهي من أكل ثوما أو بصلا أو كراثا أو نحوها، ج: 5، ص: 48، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں