بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وڈیوکال کے ذریعےہونےوالی نکاح میں میاں بیوی کے ساتھ رہنے اور پیدا ہونےوالےبچوں کا حکم


سوال

جیسا کہ نکاح فون کال اور ویڈیو کال پر منعقد نہیں ہوتا ۔ تو اب اگر کسی کا نکاح اس طرز پر یعنی فون کال پر ہوا ہو اور وہ تقریبا دو سال سے اکٹھے رہ رہے ہوں تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے اور اگر اس دوران اولاد ہوئی ہو تو اس کی بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر لاعلمی میں فون پر  نکاح کیا تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا تھا، پھر اگر نکاح کی شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے  نکاح نہیں کیا گیا  تو  اب ساتھ رہنے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔ اتنا عرصہ ساتھ رہنا جائز نہیں تھا، اس پر توبہ و استغفار کریں۔

تاہم اس طرح کے نکاح میں عقد صحیح سمجھ کر جو وطی(مباشرت) کی گئی ہے، وہ وطی (مباشرت)  بالشبہ کے درجہ میں ہے، اس لیے اس سے جو اَولاد ہوئی وہ احتیاطاً ثابت النسب ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

 إلا أن یقال: إن انعقاد الفراش بنفس العقد إنما هو بالنسبة إلی النسب؛ لأنه یحتاط في إثباته إحیاء للولد". (ردالمحتار علی الدرالمختار،ج:3، ص:517، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

ومنه أي من قسم الوطء بشبهة، قال في النهر: وأدخل في شرح السمرقندي منکوحة الغیر تحت الموطوءۃ بشبهة۔ حیث قال: أي بشبهة الملک أو العقد، بأن زفت إلیه غیر امرأته فوطئها أو تزوج منکوحة الغیر ولم یعلم بحالها وأنت خبیر بأن هذا یقتضي الاستغناء عن المنکوحة فاسدا، إذ لا شک أنها موطوءۃ بشبهة العقد أیضاً، بل هي أولی بذلک من منکوحة الغیر، إذ اشتراط الشهادۃ في النکاح مختلف فیه بین العلماء، بخلاف الفراغ عن نکاح الغیر، إذا علمت ذٰلک ظهر لک أن الشارح متابع لما في شرح السمرقندي لا مخالف له، ویمکن الجواب عن السمرقندي بأنه حمل المنکوحة نکاحاً فاسداً علی ما سقط منه شرط الصحة بقدر وجود المحلیة کالنکاح المؤقت أو بغیر شهود، أما منکوحة الغیر فهي غیر محل إذ لایمکن اجتماع ملکین في أن واحد علی شيء واحد، فالعقد لم یؤثر ملکا فاسداً، وإنما أثر في وجود الشبهة". (ردالمحتار علی الدرالمختار،ج:3، ص:517،ط:ایچ ایم سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں