بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیواپ لوڈ کرکے کمائی کا حکم


سوال

 زید ایک ویب سائٹ کی لیے  کام کرتا تھا۔ روزانہ آٹھ دس گھنٹے اس میں زید کا کام کھیل تماشوں (اسپورٹس) کی ویڈیو اَپ لوڈ کرنا ہوتا تھا،ان ویڈیوز میں موسیقی اور نامناسب عورتیں بھی ہوتی تھیں۔ اس کام کے  لیے زید کو ماہانہ سیلری ملتی تھی، زید اس کام سے توبہ کر چکا ہے اور اب دوسری روزی کی تلاش میں ہے ، زید کی کل آمدنی پانچ لاکھ روپے ہوئی  جس میں سے اب ساٹھ ہزار روپے باقی ہیں ، زید کی نیت یہ ہے جب بھی اس کو حلال روزی ملےگی وہ آہستہ آہستہ حلال روزی سے پانچ لاکھ روپے صدقہ کرے گا ، حلال روزی تھوڑی ہونے کی وجہ سے اس میں کئی  سال لگ سکتے ہیں یا یہ بھی ہو سکتا ہے زید کا دنیا میں وقت ہی پورا ہو جائے اور وہ یہ پانچ لاکھ روپے صدقہ نہ کر پائے ، زید توبہ کس طرح سے کرے؟  کیا صرف توبہ ہی کافی ہے؟ یا اتنی رقم صدقہ کرنا بھی ضروری ہے ؟ اور زید ابھی بے روزگار ہی ہے اور حالات کو دیکھتے ہوئے  روزگار ملنا ہی مشکل لگ رہا ہے۔ باقی  بے شک  اللہ قادر ہے ۔ کیا زید ان بچے ہوئے ساٹھ ہزار کو اپنے استعمال میں لے سکتا ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں    سائل     نے ویڈیوز اَپ لوڈ کر کے  جوپانچ لاکھ روپے کمائے ،  ان پیسوں کا حکم یہ ہے کہ بغیر کسی ثواب کی نیت سے کسیمستحق زکوٰۃ کو صدقہ کرنا ضروری ہے ، اور سائل اللہ پاک سے خوب توبہ و  استغفار بھی کرے ،اسی طرح  سائل کے پاس ساٹھ ہزار روپے مذکورہ آمدنی کے رکھے ہوئے ہیں،  اگر سائل کے پاس اس کے علاوہ کوئی پیسے نہیں ہیں تو  مجبوری میں ان کو اپنی ضروریات کے لیے استعمال کر سکتا ہے  ، بعد  میں جب سائل کے پاس پیسوں کا انتظام ہو جائے تو اتنی مقدار صدقہ  کرنا ضروری ہے ۔

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"والملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(كتاب  الغصب ،3/61،دارالفكر)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم ‌أرباب ‌الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه۔۔۔۔۔۔ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما،5/99،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100714

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں